سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(423) بیٹی اور داماد کو اپنے پاس ٹھہرانے کا حکم

  • 19271
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2090

سوال

(423) بیٹی اور داماد کو اپنے پاس ٹھہرانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صورت حال یہ ہے کہ بعض علاقوں میں جب کوئی نوجوان کسی خاندان میں شادی کے لیے آتاہے تو بچی کاوالد بہت زیادہ حق مہر کی شرط لگاتا ہے۔اور جب شادی پر مکمل اتفاق ہوجاتاہے۔اور نوجوان کی شادی ہوجاتی ہے تو بچی کاوالد انکار کردیتاہے کہ اس کا شوہر اس کو اپنے گھر لے جائے۔باپ ایسا اس لیے کرتاہے تاکہ اس کی بچی اسی کی خدمت میں رہے،حالانکہ وہ اس سے سخت تکلیف محسوس کرتی ہے۔اب کیا وہ اپنے خاوند کے گھر جائے یااپنے باپ کے گھر رہے؟یقیناً اس سے بہت سی مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔میں جناب سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کریں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لیے حق مہر کے مسئلہ میں آسانی اور میانہ روی کو مشروع فرمایاہے ،اسی طرح ولیمے کا معاملہ ہے ،تاکہ ہر ایک کے لیے آسانی اور سہولت کے ساتھ شادی کرانا ممکن ہوسکے اور تاکہ اس کے ذریعہ بھلائی  پر تعاون ہوتو بقدر طاقت خرچ کرکے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پاک دامنی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔

اس مسئلہ پر خیر خواہی اور حق کی تلقین کی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ہم کئی بار لکھ چکے ہیں۔اور اس موضوع پر مجلس کبار علماء کی طرف سے کئی قراردادیں اور سفارشات بھی جاری ہوچکی ہیں،جن کامضمون یہ تھا کہ حق مہر میں تخفیف اور نرمی کی ترغیب دینا اور ولیمے کرنے میں تکلف سے کام نہ لینا اور معاشرے کو اس چیز کی  رغبت دلانا جو نوجوانوں کے لیے حصول نکاح کو آسان کردے۔یقیناً میں بھی اسی مناسبت سے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو اس مسئلہ میں تعاون اور اس کی تلقین کرنے کی وصیت کرتا ہوں تاکہ نکاح کثرت سے ہوں اور بے حیائی کم ہو اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت اور نگاہوں کو پست رکھنا آسان ہوجائے۔اس کے لیے نکاح تمام اسباب سے بڑا معاون سبب ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

«يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِيعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وَجَاءٌ»[1]

"اے نوجوانوں کی جماعت!جو بھی تم  میں سے گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرلے، پس بے شک وہ(شادی) نگاہ کو پست رکھنے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے۔اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ  روزے رکھے،پس بلاشبہ وہ اس کی شہوت کو ختم کردیں گے۔"

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

((من كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته)).[2]

"جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتاہے۔"(اس کو بخاری ومسلم نے بیان کیاہے)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"وَاللهُ في عَونِ العَبدِ مَا كَانَ العَبدُ في عَونِ أخيهِ"[3]

"جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتاہے۔"

(اس کو مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔)

تحقیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنے ان بندوں کی تعریف کی ہے جو ایک د وسرے کو حق بات اور صبر کی تلقین کرتے ہیں چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَالعَصرِ ﴿١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ ﴿٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ ﴿٣﴾... سورةالعصر

"زمانے کی قسم (1) بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے (2) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (3)"

اس میں کوئی شک نہیں کہ حق مہر اور ولیمے کی  تخفیف میں تعاون کرنا اور اس کی تلقین کرنا وہ  بھی اس امر میں داخل ہے۔اور حق مہر اور ولیمے کی تخفیف سے جن فائدوں کی امید کی جاسکتی ہے وہ درج ذیل ہیں:

نکاح کاکثرت سے ہونا،غیرشادی شدہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں کمی،شرمگاہوں کی حفاظت،نگاہوں کا پست ہونا،بےحیائیوں کاکم ہونا،اور امت کا زیادہ ہونا،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة"[4]

"محبت کرنے والی،زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرو کیونکہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر کثرت ظاہر کروں گا۔"

رہا عورت کے والد یا بھائی کا اس کو اپنے خاوند کے ساتھ جانے سے روکنا تا کہ وہ انھی کی خدمت کرتی رہے اور ان کی بکریاں یااونٹ  چراتی رہے تو یہ غلط ہے جائز نہیں ہے۔ولی الامر پر واجب ہے کہ وہ میاں بیوی کو اکھٹا کرنے میں مدد کرے جس  طرح اس پر یہ واجب ہے کہ وہ بغیر کسی شرعی طریقے کے ان کی جدائی کا سبب بننے والی چیز سے خبردار کرے۔

میں عورتوں کے اولیاء کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ اپنی بچیوں کے ان کے ہمسروں سے ،اگرچہ وہ فقیر ہی کیوں نہ ہوں،شادی کرنے میں جلدی کریں اور اس مسئلہ میں ان کی معاونت کریں تاکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان  پر عمل پیرا ہوسکیں:

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم إِن يَكونوا فُقَراءَ يُغنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٣٢﴾... سورةالنور

"تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے"

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بے نکاح اور نیک غلام ولونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیاہے ،اور اس نے خبر دی ہے ،اور وہ اپنے خبر دینے میں سچا ہے کہ نکاح فقیروں کے لیے غنی کے اسباب میں سے ہے تاکہ خاوند اور عورتوں کے اولیاء مطمئن ہوجائیں کہ بلاشبہ فقر شادی میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ شادی تو رزق اور مالداری کے اسباب میں سے ہے۔(ابن باز  رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح البخاری  رقم الحدیث(1806) صحیح مسلم رقم الحدیث(1400)

[2] ۔صحیح البخاری رقم  الحدیث(2310) صحیح مسلم رقم الحدیث(2580)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(2699)

[4] ۔صحیح سنن النسائی  رقم الحدیث(3227)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 360

محدث فتویٰ

تبصرے