سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(421) جھوٹی ولایت کی سزا

  • 19269
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 979

سوال

(421) جھوٹی ولایت کی سزا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کا باپ اور بھائی ہے اور اس کے باپ کا وکیل نکاح وغیرہ میں حاضر ہوتا ہے۔وہ عورت کچھ گواہوں کے پاس گئی اور اپنا اور اپنے باپ کا نام تبدیل کرلیا اور دعویٰ کیا کہ اس کو ایک شخص نے طلاق دی ہوئی ہے اور اب وہ ا سے نیا نکاح کرنا چاہتاہے۔اس نے ایک اجنبی آدمی کو کھڑا کیا اور کہا کہ یہ اس کا بھائی ہے ،پس اس پر ساری تحریرلکھ دی گئی پھر اس کی کارگزاری ظاہر ہوگئی اور عدالت میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے تو کیا اس عورت کو اس کام پر تعزیر لگائی جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عورت کو سخت تعزیر لگنی چاہیے اور اگر ولی امر اس کو کوئی بار تعزیر لگائے تو یہ بہت اچھاہوگا،جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ایسے فعل کے ارتکاب  پر مکرر تعزیر لگاتے تھے جو فعل کئی حرام کاموں پر مشتمل ہوتا تھا چنانچہ وہ پہلے دن تعزیر ایک سو(درے وغیرہ)

لگاتے،اور دوسرے دن سو،اور تیسرے دن سو،یعنی تعزیر قسطوں میں لگاتے تاکہ اس کے بعض اعضاء خراب نہ ہوجائیں۔اسی طرح یہ مذکورہ عورت اس نے اپنے باپ کے  علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی اور اس نے اپنے بھائی کا نائب کھڑا کیا اور یہ کبیرہ گناہ ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا"[1]

"جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یا جس غلام نے اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی تو اس پر اللہ کی،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے،نہ اس کاکوئی فرض عمل قبول ہوگا اور نہ نفل۔"

بلکہ صحیح بخاری میں سعد اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی یہ روایت بھی ثابت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

"عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ"[2] (رواه البخاری ومسلم)

"جس نے ا پنے باپ کے علاوہ کسی کی  طرف نسبت کی،اس پر جنت حرام ہے۔"

اور صحیح مسلم میں ہی ایک حدیث ابو زر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے  ثابت ہے جو اس مذکورہ حدیث سے بلیغ ہے۔ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

((ما من رجل يدَّعي لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر, ومن ادعى ما ليس له فليس منا وليتبوأ مقعده من النار, ومن قال لرجل: يا كافر أو يا عدو الله وليس كذلك إلا حارت عليه))[3]

"جس کسی نے بھی جانتے ہوئے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور طرف اپنی نسبت کی ،اس نے کفر کیا۔اور جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے ،وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ،وہ اپنا ٹھکانا جہنم سمجھ لے۔اور جس نے کسی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہا،حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو اس کا لگایا ہوایہ عیب اسی پر لوٹ آئے گا۔"

یہ بہت بڑی وعید ہے۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کاارتکاب کرنے والے کو سخت سزادی جائے،وہ سو کوڑوں اور اس طرح کی سزا کا مستحق ہے۔

نیز اس نے گواہوں پر اس معاملہ میں پردہ ڈالا،ان کو باطل عقد میں ملوث کیا اور باطل نکاح کیا،لہذا  جمہور علماء فرماتے ہیں:بغیر ولی کے نکاح باطل ہے اور ایسا کرنے والے کو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی کی ا قتداء کرتے ہوئے وہ تعزیر کا حکم سناتے ہیں۔امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ   وغیرہ کا یہی مذہب ہے بلکہ علماء کاایک  گروہ اس پر رجم وغیرہ کی حد لگاتے ہیں۔اور جس نے مطلق طور پر یا مدینہ میں بغیر ولی کے نکاح کو جائز قرار دیا،اس نے بھی اس  طرح کے جھوٹےنسب کا دعویٰ کرنے اور باطل ولی بنانے کی صورت میں جائز قرار نہیں دیا،لہذا ایسے شخص کی سزا پر مسلمانوں میں اتفاق ہے۔

نیز مذکورہ عورت کو اس کی کذب بیانی پر بھی سزا ملنی چاہیے اسی طرح اس کے اس دعوے  پر کہ اس کا خاوند تھا اور اس نے اس کوطلاق دی ہے۔اورخاوند کو بھی سزا ملنی چاہیے اور ایسے ہی اس شخص کو بھی جس نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عورت کا بھائی ہے اس کو ان جرموں پر سزا دی جائے،جو  انھوں نے اس عورت کی نسبت اور اس کی شادی اور طلاق کی نسبت اور  اس کے ولی کے حاضر نہ ہونے کے متعلق جھوٹی گواہی دی ہے کیونکہ وہ اس لائق ہیں کہ ان کی سزا میں خوب مبالغہ کیاجائے۔بلاشبہ فقہاء نے جھوٹے گواہ کا منہ کالا کرنے کی دلیل پکڑی ہے اس سے جو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ اس کا  چہرہ سیاہ کرتے تھے،یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ اس کے چہرے کی سیاہی اس کے جھوٹ کی وجہ سے ہے،اور وہ اس کو پیچھے کی طرف منہ کرکے سواری(گدھے وغیرہ) پر الٹا سوار کرتے تھے یہ اشارہ کرتےہوئے کہ اس نے اصل بات کو الٹا کیا ہے اور اس کو شہر  میں گھماتے تھے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ جھوٹا گواہ ہے۔

ان لوگوں کو تعزیر لگانا حاکم کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ حاکم ،محتسب اور دیگر ولاۃ امور،جو یہ تعزیر لگانے کا اختیار رکھتے ہیں،بھی یہ تعزیر لگاسکتے ہیں۔اور یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ ان حالات میں،جن میں عورتوں کا فساد اور اور بہت سی جھوٹی گواہیاں دلوائی گئیں،ایسے ہی ہونا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

" إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغِّيِروه ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ " .[4]

"جب لو گ برائی کو دیکھ کر اس سے روکنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی طرف سے عذاب نازل کردے۔"واللہ اعلم(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح مسلم  رقم الحدیث(1370)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4071)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(61)

[4] ۔صحیح سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(4005)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 356

محدث فتویٰ

تبصرے