السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ہر عورت کو ان عاجز اور کمزور لوگوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند غروب ہونے کے بعد عید کی رات مزدلفہ سے منیٰ لوٹ آنے کی رخصت عنایت فرمائی تھی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہیں ہر عورت عاجزوں میں سے نہیں ہے عاجزی ایک ایسا وصف ہے جو مرد میں بھی ہوسکتا ہے اور عورت میں بھی اسی طرح قوت اور قدرت بھی ایسا وصف ہے جو مرد اور عورت دونوں میں ہو سکتا ہے اسی لیے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواہش کی تھی کہ وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر سے پہلے مزدلفہ سے لوٹنے کی اجازت لے لیتی جیسے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت لے لی۔ قوت اور قدرت کا اعتبار مردوں اور عورتوں میں یکساں ہو گا۔
اور صحیح بات یہ ہے کہ جب حاجی کے لیے فجر سے پہلے مزدلفہ سے لوٹنا جائز ہے تو اس کے لیے منیٰ پہنچتے ہی رمی کرنا بھی جائزہے اور طلوع آفتاب تک انتظار کرنالازم نہیں ہے لیکن اگر وہ طلوع آفتاب تک انتظار کرے تو یہ افضل توہے،لازم نہیں ہے کیونکہ مزدلفہ سے لوٹنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے رش کی وجہ سے آدمی پر(کنکریاں مارنے میں) مشقت اور تکلیف نہ ہو،پس جب آپ طلوع فجر سے پہلے منیٰ پہنچ گئی ہیں اور آپ جمرہ کوکنکریاں مارنا چاہتی ہیں تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے،لیکن طاقت اور قدرت رکھنے والا انسان تو وہ مزدلفہ سے نماز فجر پڑھے بغیر نہ لوٹے ،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔(فضیلۃالشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب