سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) وہ عورت جس نے عمرہ کیا مگر مدینہ نہ جاسکی اس کے عمرے کا حکم

  • 19201
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 980

سوال

(353) وہ عورت جس نے عمرہ کیا مگر مدینہ نہ جاسکی اس کے عمرے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں عمرے کی نیت سے مکہ گئی لیکن مکہ میں ایک دن قیام کے بعد میں بیمار پڑگئی اور میں عمرے کے ارکان پورے نہ کر سکی ۔ بلا شبہ ہم نے کعبہ کے گرد سات چکر لگالیے اور صفا اور مروہ کی سعی بھی کر لی لیکن اس بیماری کی وجہ سے ہم نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ نہ جاسکے اور اسی طرح میں اپنے شہر واپس آگئی درآں حالیکہ میں مدینہ جائے بغیر واپس آنے پر غمگین اور پریشان ہوں۔ کیا ہمارا یہ عمرہ معتبر متصور ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمرہ کرنے والی اس عورت نے طواف اور سعی کی ہے اور ابھی اس پر بال چھوٹے کروانا باقی ہیں جب وہ تین کام یعنی طواف سعی اور بال چھوٹے کروائے گی تو اس کا عمرہ مکمل ہو جائے گا۔ رہا مدینہ کی زیارت والا معاملہ تو یہ عمرے کو مکمل کرنے والی چیزوں میں سے نہیں ہے اور نہ ہی عمرے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے مسجد نبوی کی زیارت کرنا ایک مستقل سنت ہے جس کو انسان جب اسے میسر آئے ادا کر سکتا ہے تو مذکورہ عورت کے سوال کے مطابق اس کے عمرے میں سے صرف بال کٹوانے والا عمل باقی پے کیونکہ اس نے بال نہیں کٹوائے اور بال کٹوانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے اگر اب بھی وہ بال کٹوالیتی ہے تو اس کا عمرہ مکمل ہو جائے گا ۔اوراگر اس نے عمرے کے بعد فوراً واپسی کا سفر نہیں کیا تو اس کے ذمہ طواف وداع کرنا بھی باقی ہے لیکن اگر اس نے سعی اور کٹوانے کے فوراً بعد واپسی کا سفر کیا تو اس کے ذمہ طواف وداع نہیں ہے کیونکہ صحیح قول یہ ہے کہ عمرے میں طواف وداع واجب ہے دلیل اس کی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ عمومی قول ہے۔

"لا ينفر أحد حتى يكون آخر عهده بالبيت "[1]

"تم میں سے کوئی شخص آخری وقت بیت اللہ کے پاس گزارے (طواف وداع کیے)بغیر واپس نہ جائے۔"

اور اس لیے بھی کہ عمرہ حج کی طرح ہے سوائے ان چیزوں کے جن میں دونوں کے درمیان اختلاف ہے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"واصنع في عمرتك ما انت صانع في حجك". بالجعرانة فيها ... ثم اصنع في عمرتك، ما تصنع في حجك"[2]

"(اے مخاطب !)تو اپنے عمرے میں وہی کچھ کر جو تو اپنے حج میں کرنے والا ہے یا جو تو اپنے حج میں کرتا ہے،

اور عمرہ حج اصغر ہے وہ سب کچھ جو حج میں فرض ہے عمرے میں بھی فرض ہے مگر جس چیز کے مستثنیٰ ہونے کی دلیل مل جائے جیسے وقوف (منی عرفات و مزدلفہ ) کنکریاں مارنا اور (منی و مزدلفہ میں) رات گزارنا ۔لہٰذا ہم کہتے ہیں اگر تونے اپنے عمرے کی سعی کر کے واپس اپنے شہر گئی ہے تو تجھ پر طواف وداع واجب نہیں اس لیے کہ آپ کا وہ طواف جس کے بعد آپ نے سعی کی ہے وہی بیت اللہ کے ساتھ آپ کا آخری وقت شمار ہو جائے گا اور اگر تونے اس کے بعد مکہ میں قیام کیا توتونے طواف وداع میں خلل پیدا کر لیا ہے۔

رہا مذکورہ عورت کا یہ کہنا میں نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کی زیارت نہیں کی اس کا ارادہ یہ ہے کہ اس نے مدینہ کا سفر کر کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کی زیارت کا ارادہ کیا اور قبروں کی زیارت کے لیے وہ قبریں کسی کی بھی ہوں رخت سفر باندھنا جائزنہیں ہے اس لیے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلا إِلَى ثَلاثَةِ مَسَاجِدَ : الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ , وَمَسْجِدِي هَذَا , وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَى"[3]

"تین مسجدوں یعنی مسجد حرام میری یہ مسجد (مسجد نبوی ) اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے۔"

مطلب اس کا یہ ہے کہ روئے زمین کی کسی بھی جگہ کی طرف عبادت کے قصد و ارادے سے رخت سفر نہ باندھا جائے کیونکہ جن جگہوں کو رخت سفر باندھنے کے لیے خاص کیا گیا ہے وہ مذکورہ تین مسجدیں ہیں اور جو جگہیں ان کے علاوہ ہیں ان کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے ۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )


[1] ۔صحیح مسند احمد (222/1)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1750)

[3] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1765)صحیح مسلم رقم الحدیث(1340)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 308

محدث فتویٰ

تبصرے