السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسلمانوں کے بعض علماء اس شخص پر عیب لگاتے ہیں جو روزہ تو رکھتا ہے نماز نہیں پڑھتا،کیا نماز روزے میں داخل ہے؟میں روزہ رکھتا ہوں اور میراارادہ یہ ہے کہ میں"باب الریان"(جنت کا وہ دروازہ جس سے روزے دار جنت میں داخل ہوں گے)سے داخل ہونے والوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤں جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے درمیانی گناہوں کاکفارہ بن جاتا ہے ۔میں اس کی وضاحت چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ لوگ آپ پر یہ عیب لگاتے ہیں کہ آپ روزہ رکھتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے،انھوں نے جو آپ پر عیب لگایا ہے وہ یہ عیب لگانے میں درست ہیں یہ اس لیے کہ بلاشبہ نماز اسلام کا ستون ہے اور اسلام نماز کے ساتھ ہی قائم ہوتا ہے ،نماز کاتارک کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے اور اللہ تعالیٰ کافر آدمی کا روزہ،صدقہ،حج اور دیگرنیک اعمال قبول نہیں فرماتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـٰتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَبِرَسولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلوٰةَ إِلّا وَهُم كُسالىٰ وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـٰرِهونَ ﴿٥٤﴾... سورةالتوبة
"کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں"
اس بنا پر اگر آپ روزہ رکھتے ہیں اور نماز ادا نہیں کرتے تو ہم آپ سے کہیں گے:بلاشبہ آپ کاروزہ باطل ہے،صحیح نہیں ہے،نہ اللہ کے ہاں تجھے کوئی فائدہ دےگا اور نہ ہی تجھے اللہ کے قریب کرے گا۔اور جہاں تک آپ کے اس وہم کا تعلق ہے کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے درمیانی گناہوں کاکفارہ ہے تو ہم آپ کو کہیں گے:آپ اس سلسلے میں وارد ہونے والی حدیث کو نہیں پہچانتے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ"[1]
"پانچ نمازیں،ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے درمیانے گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے رمضان تک کے کفارے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے لیکن تم جو روزہ رکھتے ہو اور نماز نہیں پڑھتے تو نے کبیرہ گناہوں سےپرہیز نہیں کیاہے ۔ذرا سوچو تو سہی ترک نماز سے بڑا گناہ کونسا ہے؟بلکہ یقیناً ترک نماز کفر ہے تو کیسے ممکن ہے کہ آپ کا روزہ آپ کے گناہوں کاکفارہ بنے!پس ترک نماز کفر ہے اور آپ کا روزہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
لہذا اے میرے بھائی!آپ پر لازم ہے کہ آپ اللہ کی جناب میں توبہ کریں اور اللہ نے جو آپ پر نماز فرض کی ہے اس کو ادا کریں اور پھر روزہ رکھیں کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن روانہ کرتے ہوئے فرمایا:
(( فليكن أول ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله صلي الله عليه وسلم فان هم اجابوك لذلك فاعلمهم ان الله افترض عليهم خمس صلوات لكل يوم وليلة...الخ[2]
"سب سے پہلے تو جس چیز کی طرف ان کی دعوت دے وہ یہ ہے:گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،پس اگر وہ تیری یہ دعوت قبول کرلیں تو ان کو بتانا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔۔۔الخ"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین کے بعد عمل کی دعوت کا آغاز نماز اور زکوۃ سے کیا۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(233)
[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(1331) صحیح مسلم رقم الحدیث(19)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب