السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب حائضہ یا نفاس والی عورت فجر سے پہلے پاک ہو اور فجر کے بعد غسل کرے توکیا اس کا روزہ صحیح ہو گا کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں حائضہ عورت کا روزہ صحیح ہو گا جب وہ فجر سے پہلے پاک ہو جائے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے اور یہی حکم نفاس والی عورت کا ہے اس لیے کہ وہ اس وقت روزہ رکھنے کے اہل لوگوں میں شمار ہوتی ہے اور وہ اس کے مشابہ ہے جس کو جنابت کی حالت میں فجر طلوع ہو تو اس کا روزہ صحیح ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
﴿فَالـٔـٰنَ بـٰشِروهُنَّ وَابتَغوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُم وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ... ﴿١٨٧﴾... سورةالبقرة
"تو اب ان سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھا ہے۔اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے ۔"
پس جب اللہ نے فجر واضح ہونے تک جماع کرنے کی اجازت دی ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ غسل طلوع فجر کے بعد ہو۔نیز عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے۔
( أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم كَانَ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أَهْلِهِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ وَيَصُومُ ))[1]
"بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل سے جماع کی وجہ سے جنبی ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے دار ہوتے۔"
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع صبح کے بعد جنابت کا غسل کرتے۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔دیکھیں صحیح البخاری رقم الحدیث(1830)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب