السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں اور میری عمر لگ بھگ اکتالیس سال ہے عرصہ پچیس سال سے میرے پاس ایک سونے کا ٹکڑا ہے جو تجارت کے لیے تیار نہیں کیا بلکہ زیب و زینت کے لیے تیار کیا گیا ہے میں کبھی اس کو بیچ دیتی اور کبھی اس میں اور مال ڈال کر اس سے بہتر خرید لیتی ۔ اب میرے پاس کچھ زیور ہے اور میں نے سناہے کہ وہ سونا جو زینت کے لیے تیار کیا گیا ہو اس میں زکوۃ ہے میں اس مسئلہ میں وضاحت چاہتی ہوں اور جب مجھ پر زکوۃ واجب تھی تو اس گزشتہ مدت کا کیا حکم ہےجس میں میں نے زکوۃ ادا نہیں کی؟ معلوم رہے کہ اب جو میرے پاس سونا ہے اس سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ دینے کی طاقت نہیں رکھتی ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تم پر اسی وقت سے زکوۃ واجب ہے جب سے تجھے علم ہوا ہے کہ زیور میں زکوۃ واجب ہے لیکن آپ کے علم سے پہلے جو سال گزرے ہیں آپ کے ذمے ان کی زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ شرعی احکام علم کے بعد لازم ہوتے ہیں اور جب زیور نصاب زکوۃ یعنی بیس مثقال جو ساڑھے گیارہ سعودی جنیہ کے مساوی ہے کو پہنچ جائے تو اس میں چالیسواں حصہ ہے پس جب سونے کا زیور اس مقدار یا اس سے زیادہ مقدار تک پہنچ جائے تو اس میں زکوۃ ہر ہزار ریال میں سے پچیس ریال ہو گی ۔
اور چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے اور چاندی کی یہ مقدار چھپن ریال یا اس کے برابر چاندی ہے تو اس میں بھی زکوۃ سونے کی طرح چالیسواں حصہ ہے رہا ہیرا اور دوسرے پتھر جب وہ پہننے کے لیے ہوں تو ان میں زکوۃ نہیں ہے ہاں اگر وہ تجارت کے لیے ہیں تو جب وہ سونے اور چاندی کی قیمت کے حساب سے زکوۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں تو ان میں زکوۃ واجب ہے(سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب