السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مطلب ہے"قرآن کو صرف پاک آدمی ہی چھوئے"
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث "سلسلہ احادیث صحیحہ"میں موجود ہے اپنی تمام سندوں کے ساتھ یہ صحیح حدیث ہے اور صحیح بخاری میں ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک ایسی جماعت کے پاس آئے جس میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجودتھے۔ اور حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس سے کھسک گئے پھر جب وہ واپس لوٹے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مجلس سے کھسک جانے کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں جنبی تھا گویا کہ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں نے جنابت کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجلس میں بیٹھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرنا برا سمجھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْجُسُ" [1]
"سبحان اللہ !بلاشبہ مومن تو نجس نہیں ہوتا ۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "لايمس القرآن الا طاهر"[2](قرآن کو صرف پاک ہی چھوئے)کا مطلب یہ ہے کہ صرف مومن ہی قرآن کو چھوئے خواہ وہ ایمان لانے کے بعد حدث اکبر میں مبتلا ہو یا حدث اصغر میں اور ایسی کوئی واضح نص نہیں ہےجس میں یہ ہو کہ حدث اکبر حدث اصغر والے شخص کے لیے مصحف کو چھونا جائز نہیں ہے۔(علامہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (281)
۔صحیح صحیح الجامع رقم الحدیث (7780)[2]
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب