سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1239) نذر کے روزے

  • 18846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1129

سوال

(1239) نذر کے روزے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا شوہر بیمار ہو گیا تو میں نے نذر مانی کہ اگر اسے شفا ہو گئی تو میں ایک سال روزے رکھوں گی۔ اب وہ بحمداللہ شفایاب ہو گیا ہے، مگر میں بیمار ہوں۔ ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے منع کیا ہے۔ میں نے ڈاکٹر کو نصیحت کے باوجود کئی بار کوشش کی ہے مگر نہیں رکھ سکی تو کیا میں ان روزوں کے بدلے نقد کفارہ دے دوں؟ اور کیا یہ رقم میں اپنے کسی قریبی کو جو محتاج ہو دے سکتی ہوں؟ اور کیا اگر ممکن ہو تو میں ہر ہفتے میں دو روزے رکھ لیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی ہو اسے وہ اطاعت کا کام کرنا چاہئے۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الایمان والنذور،باب النذر فی الطاعة،حدیث:6696۔سنن ابي داؤد،کتاب الایمان والنذور،باب ماجاءفی النذر فی المعصیة،حدیث:3289،وسنن الترمذي،کتاب النذور والایمان،باب من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ،حدیث:1526۔سنن النسائي،کتاب الایمان والنذور،باب النذر فی الطاعة،حدیث:3806)سنن ابن ماجہ(2126)۔) آپ نے جو نذر مانی ہے کہ ایک سال کے روزے رکھوں گی، اور "سال" غیر معین ہے، تو چونکہ ڈاکٹر نے تمہیں فی الحال روزے رکھنے سے منع کیا ہے تو یہ روزے تمہارے ذمے رہیں گے۔ جب یہ مانع دور ہو جائے اور طاقت بحال ہو تو آپ اپنی نذر کے یہ روزے رکھنے پڑیں گے۔ لہذا انتطار کریں حتیٰ کہ شفایابی کے بعد یہ روزے رکھ سکیں، کیونکہ نذر کا سال معین نہیں کیا گیا ہے۔ جس سال بھی آپ روزے رکھیں گی صحیح ہوں گے۔ اور یہ درست نہیں کہ ہفتے میں دو دن روزے رکھیں۔ کیونکہ تم نے ایک سال کی نذر مانی ہے۔ جس کے معنی ہیں بارہ مہینے متواتر روزے رکھنا۔ اگر سال معین ہوتا اور یہ عارض ہوتا تو طاقت بحال ہونے پر آپ اس کی قضا دینی پڑتی۔

اور نذر کے متعلق جاننا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

’’نذر کوئی خیر نہیں لاتی، بلکہ اس کے ذریعے سے بخیل سے (مال وغیرہ) نکالا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري،کتاب القدر،باب القاءالنذر العبد الی القدر،حدیث:6608۔صحیح مسلم،کتاب النذر،باب النھي عن النذر وانہ لایرد شیئا،حدیث:1639وسنن النسائي،کتاب الایمان والنذور،باب النھی عن النذر،حدیث:3801۔مسند احمد بن حنبل:86/2،حدیث:5592۔)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ آدمی اس سے مشقت میں پڑتا ہے یا اس نذر کو پورا نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن جب یہ مان لی ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ کام اطاعت کا ہو۔ اور اللہ عزوجل نے اپنی نذروں کو پوری کرنے والے مومنین کی مدح فرمائی ہے:

﴿يوفونَ بِالنَّذرِ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّهُ مُستَطيرًا ﴿٧﴾... سورةالدهر

’’یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر پھیل جانے والا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَما أَنفَقتُم مِن نَفَقَةٍ أَو نَذَرتُم مِن نَذرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعلَمُهُ ...﴿٢٧٠﴾... سورةالبقرة

’’جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو یا کوئی نذر مانتے ہو تو اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَليوفوا نُذورَهُم ...﴿٢٩﴾... سورة الحج

’’اور چاہئے کہ (حاجی) اپنی نذریں پوری کریں۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّه فَلْيُطِعْهُ)

’’جس نے نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اللہ کی اطاعت کرنی چاہئے۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الایمان والنذور،باب النذر فی الطاعۃ،حدیث:6696۔سنن ابي داؤد،کتاب الایمان والنذور،باب ماجاءفی النذر فی المعصیة،حدیث:3289،وسنن الترمذي،کتاب النذور والایمان،باب من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ،حدیث:1526۔سنن النسائي،کتاب الایمان والنذور،باب النذر فی الطاعة،حدیث:3806۔)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 876

محدث فتویٰ

تبصرے