السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کے اولاد بھی پیدا ہوئی۔ بعد ازاں اس شخص نے دوسری عورت سے نکاح کیا جو کہ پہلی عورت کی سگی بھانجی ہے اور اس سے بھی اولاد پیدا ہوئی۔ یعنی کہ خالہ اور بھانجی کو نکاح میں ایک ساتھ جمع کر دیا۔ دونوں میں سے کسی ایک کو طلاق بھی نہیں دی گئی۔
عوام کالانعام خاموش ہیں اور صاحب علم تذبذب کا شکار ہیں۔ کیونکہ نکاح کسی مولانا صاحب نے ہی پڑھایا ہو گا۔ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات بالترتیب قرآن وسنت کی روشنی میں بحوالہ ارشاد فرمائیں ؟ مہر بھی ثبت فرمائیں۔
(1) کیا یہ دونوں نکاح درست اور جائز ہیں؟
(2) اگر درست ہیں تو فبہا۔ بصورت دیگر کون سا نکاح باطل ٹھہرے گا؟
(3) باطل نکاح والی اولاد کے متعلق کیا حکم ہے؟
(4) اگر باطل نکاح والی اولاد ناجائز اور حرامی ہے تو کیا اولاد باپ کی وراثت کی حقدار ہو گی یا نہیں؟
(5) کیا حلالی اولاد حرامی اولاد کے خلاف قانون وراثت کے تحت حق وراثت کا دعویٰ دائر کرنے میں حق بجانب ہو گی؟
(6) باطل نکاح والے جوڑے پر کون سی حد نافذ ہوتی ہے ؟ نکاح خوان اور گواہان پر کون سی حد ہو گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے سوالوں کے جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ
(1) صحیح بخاری جلد دوم کتاب النکاح بَابٌ لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ عَلٰی عَمَّتِهَا ص۷۶۶ پر مذکور ہے
«عَاصِمٌ عَنِ الشَّعْبِیِّ سَمِعَ جَابِرًا قَالَ : ’’ نَهَی رَسُوْلُ اﷲِﷺأَنْ تُنْکَحَ الْمَرْأَةُ عَلٰی عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا‘‘ وَقَالَ دَاودُ وَابْنُ عَوْنٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةِ ۔ ۱هـ»
اور صحیح مسلم جلد اول کتاب النکاح باب تَحْرِيْمِ الْجَمْعِ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا فِی النِّکَاحِ ص ۴۵۳ پر لکھا ہے
«عَنْ أَبِیْ سَلَمَةَ عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَال رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: لاَ تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ عَلٰی عَمَّتِهَا، وَلاَ عَلٰی خَالَتِهَا۔ ۱هـ»
’’نہ نکاح کیا جائے عورت کا اس کی پھوپھو پر اور نہ خالہ پر‘‘ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا خالہ کا نکاح درست ہے اور اس کے بعد بھانجی کا نکاح درست نہیں باطل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺفرما رہے ہیں :« وَلاَ عَلٰی خَالَتِهَا» اگر پہلا نکاح خالہ والا درست نہ ہو تو «عَلٰی خَالَتِهَا»والی صورت نہیں بنتی اور نہ ہی اسے «جَمْعٌ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا» قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ معلوم ہے کہ مذکور صورت«عَلٰی خَالَتِهَا» بھی ہے اور «جَمْعٌ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا» بھی ہے۔
اس میں سوال نمبر۲ ، نمبر۳ ، نمبر ۴ اور نمبر ۵ کے جواب بھی بیان ہوگئے ہیں کیونکہ جب دوسرا نکاح ازروئے شریعت باطل ٹھہرا لہٰذا اس پر نکاح باطل کے تمام احکام لاگو ہوں گے۔
(6) اس کا تعلق قاضی صاحب کے ساتھ ہے وہی اپنے اجتہاد سے حد یا تعزیر بتائیں گے پھر وہی اس حد یا تعزیر کو نافذ فرمائیں گے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب