سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1232) عقیقہ کے احکام

  • 18839
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1704

سوال

(1232) عقیقہ کے احکام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے، مگر ان کی ولادت کے مواقع پر مجھے اس قدر گنجائش نہ تھی کہ ان کے عقیقے کرتا۔ اب وہ بڑے ہو گئے ہیں یعنی 19 سال اور 16 سال کے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ عقیقہ کر سکتا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کی قربت اور رضا چاہتا ہوں، تاکہ ہمارے تمام احوال کی اصلاح اور ان میں خیر ہو۔ یا اب یہ ہم سے ساقط ہو چکا ہے؟

(2) اگر اسلامی کیسٹیں اور کتابچے بطور صدقہ تقسیم کیے جائیں اور بچوں کی طرف سے تقسیم کیے جائیں تو کیا اس کا فائدہ ہو گا؟ بہرحال مجھے اب کیا کرنا چاہئے؟ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور علماء کے مذہب کے مطابق عقیقہ سنت ہے۔ اہل ظاہر اور تابعین میں سے حسن بصری رحمہ اللہ اسے واجب کہتے ہیں۔ ان کی دلیل وجوب حضرت سلمان الضبی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو بخاری میں تعلیقا اور مسند احمد اور کتب سنن میں موصولا بسند صحیح وارد ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى) (صحیح بخاري،کتاب العقیقة، باب اماطة الاذی عن الصبي فی العقیقة،حدیث:5471وسنن ابی داود،کتاب العقیقة،حدیث:2839وسنن الترمذي،کتاب الاضاحی،باب الاذان فی اذن المولود،حدیث:1515وسنن ابن ماجہ،کتاب الذبائح،باب العقیقة،حدیث:3164۔)

’’لڑکے کی طرف سے عقیقہ ہے، اس کی طرف سے خون بہا اور اس سے میل کچیل (بال) دور کر۔‘‘

’’اهرق‘‘  صیغہ امر، وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘

ایسے ہی صحیح بخاری، کتب سنن اور مسند احمد میں ہے، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب العقیقة،باب اماطة الاذی عن الصبي فی العقیقة،حدیث:5472سنن الترمذي،کتاب الاضاحی،باب من العقیقة،حدیث:1522ومسند احمد بن حنبل:17/5،حدیث:20201۔)

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اگر بچے کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے اور وہ فوت ہو جائے تو وہ اپنے ماں باپ کے حق میں سفارش نہیں کر سکے گا۔ بعض علمائ نے کہا ہے کہ "ہر بچہ عقیقہ کے ساتھ گروی ہے۔" کے معنی یہ ہیں کہ جب تک اس کی طرف سے جانور ذبح نہ کر لیا جائے اس کا نام نہ رکھا جائے اور نہ اس کا سر مونڈا جائے اور ذبح کرتے ہوئے یوں کہا جائے:

(هذه عقيقة فلان باسم الله، اللهم  منك ولك الله اكبر)

’’یہ فلاں کا عقیقہ ہے، اللہ کے نام سے، اے اللہ یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی حضور پیش ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔‘‘

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عقیقہ سنت مستحبہ ہے اور واجب نہیں۔ اور یہ مذہب ہی درست ہے۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں بسند حسن، عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا: "اللہ تعالیٰ کو تمہارا عقوق (نافرمان اور عصیان) ناپسند ہے صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اس بارے میں نہیں بلکہ اس بارے میں معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں کسی بچے کی ولادت ہوتی ہے تو فرمایا: جو اپنے بچے کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے اسے کر دینی چاہئے۔ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہوں ایک جیسی، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب العقیقة،حدیث:2842وسنن النسائي،کتاب العقیقة،حدیث:4212ومسند احمد بن حنبل:182/2،حدیث:6713۔)

الغرض عقیقہ مستحب عمل ہے۔

اور غور کیا جائے کہ یہ عمل ’’غلام اور جاریہ‘‘ کے لیے ہے (یعنی لڑکا اور لڑکی، جو بالغ نہ ہوئے ہوں انہیں عربی میں غلام اور جاریہ کہتے ہیں)۔ یہ عمل بلوغت سے پہلے تک کے ساتھ مقید ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ "ساتویں دن ذبح کیا جائے۔" یہ وقت تعین کے لیے نہیں ہے بلکہ اختیار اور ترجیح کے لیے ہے۔ اور اگر اس کے بعد بلوغت سے پہلے پہلے کر دیا جائے تو جائز ہے۔ بچہ جب بالغ ہو جائے تو مخاطب سے یہ ساقط ہو جائے گا۔ بعد میں بچے اپنی طرف سے کریں تو جائز ہے۔ لیکن احادیث میں یہ حکم "غلام اور جاریہ" کے لیے ہے۔ بڑے بالغ کا اپنی طرف سے عقیقہ کرنا محتاج دلیل ہے۔ اور وہ روایت جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ کیا تھا، وہ ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔

(2) اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اشاعت علم کے لیے اسلامی کیسٹیں اور کتابچے خرید کر بطور صدقہ ان لوگوں کو دینا جو انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ایک نفع آور عمل ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 870

محدث فتویٰ

تبصرے