سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1219) نذر كو کسی خاص جگہ سے دوسری جگہ پوری کرنا

  • 18826
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1002

سوال

(1219) نذر كو کسی خاص جگہ سے دوسری جگہ پوری کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی نے کوئی خاص نذر مانی ہو، تو کیا بعد میں وہ اس خاص جگہ کی بجائے کسی دوسری اہم تر جگہ میں اپنی نذر پوری کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کے جواب سے پہلے میں بطور مقدمہ کچھ کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ اولاد انسان کو نذر ماننی ہی نہیں چاہئے۔ نذر ماننا مکروہ یا بقول بعض حرام ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ’’نذر کوئی خیر اور بھلائی نہیں لاتی ہے، بلکہ اس کے ذریعے سے بخیل سے مال نکالا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب النذر،باب النھي عن النذر وانہ لایردشیئا،حدیث:1639وسنن النسائي،کتاب الایمان والنذور،باب النھي عن النذر،حدیث:3801ومسند احمد بن حنبل:86/2،حدیث:5592۔)

تو آپ نذر کی وجہ سے جس خیر کی توقع رکھتے ہیں، وہ نذر کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ بیمار ہونے پر نذر مان لیتے ہیں کہ اگر شفا ہو گی تو وہ یہ یہ کرے گا۔ اگر گم شدہ چیز مل گئی تو ایسے ایسے کرے گا۔ پھر اگر بیمار کو شفا ہو جاتی ہے یا گم شدہ چیز مل جائے۔ نذر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب ان کا مطلب پورا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنی مانی ہوئی نذر پوری کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں، اور کئی اسے چھوڑ ہی دیتے ہیں، تو یہ بہت غلط کام ہے۔ ذرا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ملاحظہ ہو:

﴿وَمِنهُم مَن عـٰهَدَ اللَّهَ لَئِن ءاتىٰنا مِن فَضلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكونَنَّ مِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿٧٥ فَلَمّا ءاتىٰهُم مِن فَضلِهِ بَخِلوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُم مُعرِضونَ ﴿٧٦﴾... سورةالتوبة

’’اور ان میں سے کئی وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم صدقہ و خیرات کریں گے اور نیکوکار ہو جائیں گے۔ لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا۔‘‘

الغرض کسی صاحب ایمان کو نذر نہیں ماننی چاہئے۔ اور اب سوال کا دوسرا حصہ کہ انسان نے جب ایک مقام پر اپنی نذر پوری کرنے کا عہد کیا ہو اور بعد میں اسے اس سے کوئی بہتر موقع اور مقام حاصل ہو، جو اللہ کی قربت میں افضل اور مخلوق کے لیے زیادہ نفع آور ہو تو اس افضل کی طرف رجوع کر لینا جائز ہے۔؎۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کے لیے مکہ فتح کرا دے گا، تو میں بیت المقدس میں نماز پڑھوں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہیں پڑھ لو۔‘‘ اس نے دوبارہ کہا تو آپ نے فرمایا: یہیں پڑھ لو۔‘‘ اس نے پھر کہا تو آپ نے فرمایا: ’’تیری مرضی ہے۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب الایمان والنذور،باب من نذر ان یصلي في بیت المقدس،حدیث:3305السنن الکبری للبیھقي:82/10،حدیث:19922۔) یہ دلیل ہے کہ اگر انسان اپنی نذر سے کسی کم درجہ عمل سے کسی افضل عمل کی طرف راغب ہو تو جائز ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 862

محدث فتویٰ

تبصرے