السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض مقامات پر معلم کے نام پر ایک جشن منایا جاتا ہے۔ کیا اس میں حاضر ہونا اور اس کے ہدیے قبول کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ایک بڑی پریشان کن صورت حال ہے جو کفار کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی جاری ہو گئی ہیں۔ جب تک پورا نظام زندگی نہ بدلے ان کو ختم کرنا مشکل ہے۔ جبکہ اسلام میں تین عیدوں کے علاوہ اور کوئی عید نہیں۔ دو سالانہ عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ، اور ایک ہفتہ اور عید جمعہ۔
ہمیں خود مسلمانوں میں ایک نئی عید، عید میلاد النبی کا سامنا ہے جو ایک مدت سے مسلمانوں میں رواج پا گئی ہے اور جو قدیم عیسائیوں کی تقلید میں شروع ہوئی ہے، اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اور یہ بدعتی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جب عیسائی اپنے نبی کا دن مناتے ہیں تو ہم کیوں نہ منائیں۔ ان لوگوں کی اپنے دین کے متعلق عجیب غفلت ہے۔ گویا عیسائی ان کے لیے نمونہ ہیں (اور پیغمبر علیہ السلام نمونہ نہیں ہیں)۔ کیا آپ نے ہمیں ان لوگوں کی پیروی سے منع نہیں کیا ہے؟
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے سوموار کے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے کہ اس میں میری ولادت ہوئی، اور اسی میں مجھ پر وحی کا نزول شروع ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب استحباب ثلاثة ایام من کل شھر وصوم یوم عرفة،حدیث:1162وسنن ابي داؤد،کتاب الصیام،کتاب في صوم الدھر تطوعا،حدیث:2426ومسند احمد بن حنبل:299/5،حدیث:22603۔) گویا آپ نے فرمایا کہ اللہ کے شکر میں، کہ اس نے تمہیں میری ولدت سے تم پر انعام کیا، اور مجھے رسول بنایا، اس دن کا روزہ رکھو۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اس نعمت کے شکر میں، کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں، ہر سوموار کا روزہ رکھنا چاہئے۔ جبکہ بہت سے روزہ داروں کو جو اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، اس نعمت کے شکریہ کا خیال تک نہیں ہوتا ہے۔
اور یہ مسلمان جنہوں نے عید میلاد منانا شروع کی ہے، حقیقت میں انہوں نے افضل اور اعلیٰ کے بدلے ادنیٰ چیز حاصل کی ہے۔ ان میں سے کوئی اس دن کا روزہ نہیں رکھتا، اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم یہ دن کیوں مناتے ہو؟ تو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد اور آپ کی تعظیم میں ہم یہ دن مناتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے اللہ کے حکم سے وہ چیز مشروع فرمائی ہے جو تمہارے لیے اس جشن سے کہیں بہتر اور افضل ہے۔ اور تمہارا یہ عمل (جشن منانا) اس کی اسلام میں کوئی اصل نہیں ہے۔ بلکہ کفار سے مشابہت ہے۔
اور پھر تم یہ جشن سال میں صرف ایک بار مناتے ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہر ہر ہفتے منانے کی ترغیب دی ہے (یعنی روزہ رکھنے کی)۔ ذرا غور کرو، ان دو عملوں میں سے کون سا عمل افضل اور بہتر ہے؟
اور ہدیہ کا جو پوچھا گیا تو وہ بھی اصل کا تابع ہے۔ جب اصل غلط ہے تو اس پر مرتب کی گئی چیز بھی غلط اورفاسد ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب