سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(423) کورٹ میرج کی شرعی حیثیت

  • 1881
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3471

سوال

(423) کورٹ میرج کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تین چار سال قبل ایک لڑکے اور لڑکی کے آپس میں تعلقات ہو گئے اب اسی دوران لڑکی نے اپنی والدہ کو کہا تو وہ یہاں رشتہ کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ بات طے ہو گئی۔  نکاح کی تاریخ بھی طے ہو گئی ۔ عین نکاح کے دن (چونکہ لڑکی کا والد سادہ آدمی تھا اس لیے اسے اس کے بھائیوں نے مجبور کیا کہ وہاں رشتہ نہیں دینا)۔پیغام ملا کہ آپ نکاح نہ لینےآئیں۔ لڑکی کی والدہ بھی جواب دے کر چلی گئی ۔ چند دنوں کے بعد لڑکی وہاں سے لڑکے کے پاس آ گئی۔ اور انہوں نے عدالت میں رجوع کر کے نکاح کر لیا۔ اس نکاح سے قبل دونوں زنا کے مرتکب بھی ہوئے ۔ اور عین نکاح کے وقت (بقول لڑکے کے) لڑکی کو حمل بھی تھا۔

کچھ عرصہ کے بعد لڑکی کی والدہ رات اس لڑکی کو واپس لے کے چلی گئی۔ اور پھر عدالت میں کیس چلتا رہا آخر فیصلہ لڑکے کے حق میں ہو گیا ۔ اور وہ لڑکی کو اپنے گھر لے آیا ۔ چند ہی دنوں بعد اس لڑکے کو احساس ہوا کہ نکاح کے وقت تو حمل تھا لہٰذا نکاح نہیں ہوا ۔ اب اس نے ایک مولوی صاحب سے رجوع کیا اور اس مولوی صاحب نے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر کچھ حق مہر کے تحت اس لڑکے کا نکاح پڑھ دیا ۔ جبکہ وہ گواہوں والے معاملے سے لاعلم تھا۔ اور اب اسے اس بات کا بڑا افسوس ہے۔

لڑکی کی والدہ فوت ہو چکی ہے اور لڑکی کا والد اس اہل نہیں کہ وہ ولی بن سکے (وہ لائی لگ ہے) ان دونوں کی اولاد بھی ہو چکی ہے۔ لڑکی کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔لڑکا اور لڑکی کہتے ہیں کہ اب ہم نے سچے دل سے توبہ بھی کر لی ہے۔ باوضاحت جواب لکھیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں نکاح درست نہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھاناتمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘  اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان  آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

پھر صورت مسئولہ میں نکاح اذن ولی کے بغیر ہے اور اذن ولی کے بغیر نکاح درست نہیں قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں لوگ اذن ولی کے بغیر نکاح کر لیا کرتے تھے اسلام نے اسلامی نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے صحیح بخاری میں ہے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

«فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ ﷺ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِکَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ کُلَّهُ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ»

’’پس جب نبیﷺکو بھیجا گیا ساتھ حق کے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے مگر وہ نکاح جو آج لوگ کرتے ہیں‘‘ اور ’’نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ‘‘ کی وضاحت اسی حدیث میں پہلے آ چکی ہے چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں :

«فَنِکَاحٌ مِنْهَا نِکَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ ، فَيُصْدِقُهَا ، ثُمَّ يَنْکِحُهَا»(جلد دوم كتاب النكاح باب من قال لا نكاح الا بولى ص769 و ص770)

’’پس ان نکاحوں میں سے ایک نکاح وہ ہے جو آج لوگ کرتے ہیں کہ آدمی دوسرے آدمی کو پیغام دیتا اس لڑکی کے متعلق جو اسکی سرپرستی میں ہوتی یا اس کی بیٹی کے متعلق پس وہ اس لڑکی کا حق مہر مقرر کرتا پھر اس سے نکاح کرتا‘‘

عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارواء الغليل حديث نمبر2600

ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نکاح کے مسائل ج1ص 304

محدث فتویٰ

 

تبصرے