سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1192) مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول

  • 18799
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2181

سوال

(1192) مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں مردوں کے آزادانہ میل جول اور ختلاط کے بارے میں اسلام کی کیا رائے ہے؟ اس بارے میں بہت بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مردوں عورتوں کا اختلاط اور آزادانہ میل جول ایک اہم سنگین مسئلہ ہے۔ اس بارے میں فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا ایک تفصیلی فتویٰ جاری ہو چکا ہے، جو درج ذیل ہے:

مردوں عورتوں کا اختلاط تین طرح سے ہو سکتا ہے:

1: عورتوں کا اپنے محرموں کے ساتھ اختلاط۔ اس کے جواز اور مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

2: برے مقصد اور بری نیت سے عورتوں کا غیر محرموں اور اجنبیوں کے ساتھ اختلاط۔ اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

3۔ سکولوں، کالجوں، دفتروں، ہسپتالوں، دکانوں اور دیگر پارٹیوں اور اجتماعات میں ان کا آزدانہ اختلاط شاید سائلین یہ سمجھتے ہیں کہ ان اجتماعات اور اختلاطات میں کوئی شر اور فتنہ اور برائی نہیں ہے۔ اس سبہ کا جواب ہم تفصیل سے دینا چاہتے ہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ:

اللہ تعالیٰ نے مردوں کو طاقت ور بنایا ہے، یہ عورتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں اور عورتیں بھی باوجود اپنی طبعی کمزوری اور نرمی کے مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ جب ان دونوں اصناف میں آزادانہ اور بے باک اختلاط اور میل جول بڑھتا ہے تو اس کے غلط نتائج یقینا سامنے آتے ہیں کیونکہ (إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ) ’’نفس انسان کو برائی کی طرف بہت زیادہ آمادہ کرتا ہے۔‘‘ اور خواہش انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ اور شیطان ہمیشہ برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ اسلامی شریعت چند مقاصد پر مبنی ہے، ان مقاصد کے لیے کچھ وسائل اور ذرائع مقرر کیے گئے ہیں، جن میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ عورتیں، مردوں کی خواہش پوری کرنے کا مقام ہیں اور شریعت نے ان دونوں کے مابین غلط روابط کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ جن کی کچھ وضاحت کتاب و سنت کے درج ذیل دلائل سے واضح ہو گی:

1: سورہ یوسف میں ہے:

﴿وَر‌ٰوَدَتهُ الَّتى هُوَ فى بَيتِها عَن نَفسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبو‌ٰبَ وَقالَت هَيتَ لَكَ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبّى أَحسَنَ مَثواىَ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٣﴾... سورةيوسف

’’اور یوسف کو اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ رہتے تھے، اپنے نفس کے متعلق بہلانا پھسلانا شروع کیا، اور دروازے بند کر دیے اور کہا: لو آ جاؤ۔ یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ، وہ میرا سردار ہے، جس نے مجھے بہت اچھی طرح رکھا ہے، اور ظالم فلاح نہیں پایا کرتے۔‘‘

اس واقعہ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ جب عزیز مصر کی بیوی اور یوسف علیہ السلام کے مابین اختلاط ہوا تو چھپی بات ظاہر ہو گئی۔ عورت نے چاہا کہ یوسف علیہ السلام اس کی بات مان لیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں محفوظ رکھا:

﴿فَاستَجابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنهُ كَيدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ العَليمُ ﴿٣٤﴾... سورةيوسف

’’اللہ نے اس کی دعا قبول کر لی اور عورتوں کے داؤ پیچ سے اس پھیر دیے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

چنانچہ جب بھی کہیں مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، ہر ایک دوسرے سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن وسائل بھی استعمال کرتا ہے۔

2: اللہ عزوجل نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں، ایسے ہی عورتوں کو بھی ہے:

﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ذ‌ٰلِكَ أَزكىٰ لَهُم إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما يَصنَعونَ ﴿٣٠ وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورةالنور

ان آیات کا حکم وجوب عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اور پھر آخر میں فرمایا: ’’یہ عمل تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی اور زیادہ طہارت کا باعث ہے۔‘‘ صاحب شریعت نے عورتوں کو اس طرح دیکھنے کو معاف نہیں فرمایا ہے، سوائے اس کے جو نظر اچانک پڑ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اے علی! اپنی نظر کے پیچھے دوسری نظر مت لگا۔ بلاشبہ تیرے لیے پہلی مباح ہے، دوسری نہیں۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب النکاح،باب فیما یومر بہ من غض البصر،حدیث:2149سنن الترمذي،کتاب الادب،باب نظرةالمفاجاة،حدیث:2777ومسند احمد بن حنبل:159/1،حدیث:1373۔) (مستدرک حاکم، صحیح علیٰ شرط مسلم، اور امام ذہبی نے تلخیص میں ان کی موافقت کی) اور اس معنی کی کئی احادیث ہیں۔ اللہ نے نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ ناجائز دیکھنا نظر کا زنا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، فرمایا کہ ’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور قدموں کا زنا چلنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب القدر،باب قدر علی ابن آدم حظة من الزنا وغیرہ،حدیث:2657سنن ابي داؤد،کتاب النکاح،باب فیمایومر بہ من غض البصر،حدیث:2153ومسند احمد بن حنبل:2/343،حدیث:8507،السنن الکبري للبیھقي:89/7،حدیث:13288۔)

نظر کو زنا اس لیے کہا گیا ہے کہ آدمی عورت کے محاسن اور خوبصورتی کو دیکھنے سے لذت پاتا ہے، جو دیکھنے والے کے دل میں اتر جانے کا باعث ہے۔ اگر وہ دل میں اتر گئی تو پھر لازما بدکاری کے لیے بھی کوشش کرے گا۔ لہذا صاحب شریعت نے پہلے ہی قدم پر عورت کو دیکھنا ناجائز قرار دے دیا ہے، کیونکہ اس کے نتائج برے اور غلط نکلتے ہیں، اور آزادانہ اختلاط اور میل جول یہی کچھ لاتا ہے جس کا انجام کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں ہو سکتا۔

3: ایک عورت سراسر "عورہ" یعنی قابل ستر چیز ہے۔ اس کا سارا بدن چھپا ہوا ہونا چاہئے۔ اس کا عریاں ہونا یا جس قدر بھی وہ ننگا ہو، دیکھنے جانے کی دعوت کی دعوت دیتا ہے۔ یہ نظر اس کے دل میں ٹک جانے کا باعث بنتی ہے۔ پھر اس کے حاصل کرنے کے لیے اسباب و ذرائع تلاش کیے جائیں گے، اور آزدانہ اختلاط کا عین یہی نتیجہ ہے۔

4: اللہ عزوجل نے عورتوں کو حکم دیا ہے:

﴿وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ ...﴿٣١﴾... سورةالنور

’’اور یہ چلتے ہوئے اپنے پاؤں نہ پٹکیں کہ ان کی چھپی زینت ظاہر ہو۔‘‘

زمین پر چلتے ہوئے پاؤں پٹک لینا بنیادی طور پر جائز ہے، مگر عورتوں کو اس سے منع کر دیا گیا ہے، تاکہ مردوں کو ان کے پازیبوں کی آواز سنائی نہ دے کہ اس سے ان کے دلوں میں ان عورتوں کے لیے ان کے صنفی جذبات کو تحریک ملے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آزادانہ اختلاط سے منع کیا جاتا ہے کہ اس کا نتیجہ بھی معاشرتی برائی ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

5: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يَعلَمُ خائِنَةَ الأَعيُنِ وَما تُخفِى الصُّدورُ ﴿١٩﴾... سورةالغافر

’’اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والی آنکھوں اور جو دل چھپاتے ہیں، ان کو خوب جانتا ہے۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان آیات کے بارے میں منقول ہے کہ آدمی کسی کے گھر جاتا ہے، اور اگر وہاں کوئی خوبصورت عورت ہو جو اس کے پاس سے گزرے، تو اگر گھر والے غافل ہوں تو یہ اسے دیکھنے لگتا ہے، اور اگر وہ متنبہ ہو جائیں تو یہ اپنی نظریں جھکا لیتا ہے۔ پھر اگر وہ غافل ہوں تو دیکھنے لگتا ہے اور متنبہ ہو جائیں تو اپنی نظریں جھکا لیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ دل کی بات بھی خوب جانتا ہے کہ اس کے جی میں ہے کہ اگر موقع ملے تو اس شرمگاہ کو دیکھ لے، پھر اگر موقع ملے تو بدکاری بھی کر گزرے۔

یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوری سے دیکھنے والی آنکھ کو خائن اور چور آنکھ کہا ہے۔ تو ذرا غور کیا جائے کہ بے باکانہ اختلاط اور میل جول میں کیا ہوتا ہے؟

6: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بالخصوص حکم دیا ہے:

﴿وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ...﴿٣٣﴾... سورةالاحزاب

’’اور اپنے گھروں پر ٹکی رہو اور پہلی سابقہ جاہلیت کے سے انداز میں اپنی زینت کا اظہار نہ کرو۔‘‘

یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ جب ازواج نبی کو، جو ہر طرح سے طاہر، مطہر اور پاکیزہ ہیں، حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں اور خص ضرورت کے علاوہ باہر نہ جائیں، تو عام عورتوں کو اختلاط کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے؟ جبکہ اس دور میں عورتوں کی سرکشی حد سے بڑھ رہی ہے، وہ اپنی حیا کی چادر اتار پھینکنے پر آمادہ ہیں اور بڑی بے پروائی سے اجنبی اور غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت اور سنگار کا اظہار کرتی ہیں، کھلے منہ ان کے سامنے آ جاتی ہیں، اور لباس کا معاملہ بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اور دوسری طرف ان کے ولی امر مردوں کی دینی غیرت بھی جاتی رہی ہے۔ اس آیت کریمہ کا خطاب حکم کے اعتبار سے عام ہے، اس کے ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے لیے خاص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

اور اب ہم احادیث رسول سے دلائل پیش کرتے ہیں:

1: سیدہ ام حمید رضی اللہ عنہا جلیل القدر صحابی ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں پسند کرتی ہوں کہ آپ کے ساتھ آپ کے پیچھے نماز پڑھاا کروں۔ آپ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ میرے پیچھے نماز پڑھنا پسند کرتی ہے، مگر تیری نماز جو تو اپنے کمرے میں پڑھے، وہ تیری اس نماز سے بہتر ہو گی جو تو اپنے صحن میں پڑھے۔ اور تیری وہ نماز جو تو اپنے صحن میں پڑھے بہت بہتر ہو گی اس نمز سے جو اپنی قوم کی مسجد میں پڑھے۔ اور تیری وہ نماز جو تو اپنی قوم کی مسجد میں پڑھے، تیری اس نماز سے افضل ہو گی جو تو میری اس مسجد میں پڑھے۔ چنانچہ ان خاتون نے کہا کہ میرے لیے ایک دور کے کمرے میں جو تاریک ہو، نماز بنا دی جائے، پھر وہ بنا دی گئی۔ انہوں نے اپنی باقی ساری زندگی میں کہیں اور نماز نہیں پڑھی حتیٰ کہ ان کی وفات ہو گئی۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:371/6،حدیث:27135وصحیح ابن خزیمۃ:95/3،حدیث:1689،صحیح ابن حبان:595/5،حدیث:2217۔)

صحیح ابن کزیمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کی اللہ تعالیٰ کے ہں سب سے محبوب نماز وہی ہے جو وہ اپنے گھر کے تاریک ترین کمرے میں ادا کرے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:96/3،،95،حدیث:1692،1691۔)

علاوہ ازیں بھی کئی احادیث ہیں جن میں یہی بیان ہے کہ عورت کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھے۔

اس میں یہی دلیل ہے کہ عورت کی عبادت وہی افضل ہے کہ جو وہ اپنے گھر میں ادا کرے۔ اس کی یہ نماز مسجد نبوی بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت سے بھی بڑھ کر ہے۔ لہذا مردوں عورتوں کو اختلاط سے منع کرنا لائق اولٰی ثابت ہوا۔

2: صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مردوں کی بہترین صفیں وہ ہیں جو ابتدا میں ہوں، اور کم درجہ وہ ہیں جو آخر میں ہوں۔ اور عورتوں کی بہترین صفیں وہ ہیں جو آخر میں ہوں، اور کم درجہ وہ ہیں جو شروع میں ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الصلاة،باب تسویة الصفوف واقامتھا،حدیث:440وسنن ابی داؤد،کتاب الصلاة،باب صف النساء وکراھية التاخر عن الصف الاول،حدیث:678وسنن الترمذي،ابواب الصلاة،باب فضل الصف الاول،حدیث:224وسنن النسائی،کتاب الامامة،باب ذکر خیر صفوف النساءوشر صفوف الرجال،حدیث:820وسنن ابن ماجہ،کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،باب صفوف النساء،حدیث:1000۔)

امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔

اس میں دلیل یوں ہے کہ عورتوں کے لیے، جب وہ مسجد میں آئیں، مشروع یہ ہے کہ مرد نمازیوں سے دور اور الگ رہیں۔ پھر بیان کیا کہ عورتوں کی کم درجہ صفیں وہی ہیں جو ابتدا میں ہوں، اور جو آخر میں ہوں وہ افضل ہیں۔ ان کی فضیلت صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ مردوں کے اختلاط اور ان کو دیکھنے سے دور ہوتی ہیں۔ ان کی حرکات دیکھنے سے یا ان کا کلام سن کر ان کا دل ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اور شروع کی صفوں کو اس کے برعکس فرمایا کیونکہ وہ مردوں سے قریب، ان کی حرکت دیکھتی اور ان کی آوازیں سنتی ہیں، تو ان کا دل ان کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح مردوں کی کری صفیں کم درجہ صرف اسی وجہ سے ہیں کہ وہ جلدی نہیں پہنچے، امام کا قرب حاصل نہیں کر سکے، اور پھر آخر میں عورتوں کے قریب ہوئے جو دل کو مشغول کرنے والی ہوتی ہیں اور ممکن ہے اس کے لیے تشویش کا باعث بنیں اور اس کی عبادت ہی خراب کر دیں۔ تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت عورتوں سے صرف قریب ہونے کی بتائی ہے۔ اختلااط کی نہیں، تو جب اختلاط ہو گا تو کیا حال ہو گا؟

3: صحیح مسلم میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم عورتوں سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں آئے تو خوشبو نہ لگائے۔‘‘

مسند احمد، ابوداؤد اور مسند شافعی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو۔ لیکن چاہئے کہ یہ ’’تفلات‘‘ یعنی خوشبو لگائے بغیر آئیں۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب الصلاة،باب ماجاءفی خروج النساء الی المسجد،حدیث:565۔مسند احمد بن حنبل:438/2،حدیث:9643۔مسند الشافعي،ص:171،حدیث:819ومصنف ابن ابي شیبة:156/2،حدیث:7609۔)

علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی روشنی میں مسجد میں آنے والی عورت کے لیے خوشبو لگا کر آنا حرام ہے۔ کیونکہ یہ مردوں کو دعوت دینے اور ان کے جذبات کو تحریک دینے کا بلکہ خود عورت کے لیے بھی تحریک کا باعث ہو سکتی ہے۔ اور مزید کہا کہ خوشبو کے ساتھ ساتھ خوبصورت لباس، خوبصورت زیور، جو ظاہری حالت کو عمدہ بنا دیتا ہے، بھی ناجائز ہے۔ اور عین یہی علت اختلاط ہے۔

علامہ خطابی رحمہ اللہ نے معالم السنن (شرح سنن ابی داود) میں ’’تفل‘‘ کے معنی لکھے ہیں کہ جس کی بو ناگوار ہو۔ گگ امراة تفلة‘‘ اس عورت کو کہتے ہیں جس نے خوشبو نہ لگائی ہو۔

4: سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے جو ان کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو۔‘‘(صحیح بخاري،کتاب النکاح،باب مایتقی من شوم المراۃ،حدیث:4808۔صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاءوالتوبۃوالاستغفار،باب اکثر اھل الجنة الفقراء،حدیث:2740۔سنن الترمذی،کتاب الادب،باب تحذیر فتنۃ النساء،حدیث:2780،وسنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب فتنة النساء،حدیث:3998۔)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مردوں کے لیے باعث فتنہ فرمایا ہے۔ فتنے کا باعث بننے والی عورتوں اور ان سے متاثر ہونے والے مردوں کو کیونکر اکٹھے کیا جا سکتا ہے؟ یقینا یہ جائز نہیں ہو گا۔

5: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا دنیا بڑی شیریں اور سرسبز و شاداب ہے اور اللہ نے تمہیں یہاں آباد کیا ہے۔ اور دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بھی۔ بلاشبہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے عورتوں ہی کا فتنہ برپا ہوا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاءوالتوبةوالاستغفار،باب اکثر اھل الجنة الفقراء،حدیث:2742سنن الترمذي،کتاب الفتن،باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابہ بما ھو ھائن الی یوم القیامة،حدیث:2191،ومسند احمد بن حنبل:22/3،حدیث:1185۔)

اس حدیث میں ثبوت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے (اجنبی) عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور آپ کا حکم واجب الطاعۃ ہے۔ اگر مردوں عورتوں کا آزادانہ میل جول اور اختلاط ہو تو اس ارشاد پر عمل کیونکر ہو سکے گا؟ یقینا ناممکن ہو گا، لہذا یہ ناجائز ہے۔

6: سنن ابی داود اور کتاب الکنی بخاری میں ہے، جناب حمزہ بن ابی اسید انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا، جبکہ وہ مسجد سے نکل رہے تھے اور مردوں عورتوں کا راستے میں اختلاط ہو گیا تھا، آپ نے عورتوں سے فرمایا: ’’پیچھے ہٹ جاؤ، تمہارے لیے راستے کے عین درمیان چلنا درست نہیں ہے، راستوں کے اطراف میں ہو کر چلا کرو۔‘‘ چنانچہ عورت دیوار کے ساتھ لگ کر چلتی تھی حتیٰ کہ اس کا کپڑا دیوار کے ساتھ اٹک اٹک جاتا تھا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی مشی النساءمع الرجال فی الطریق،حدیث:5272۔المعجم الکبیر للطبرانی:261/19،حدیث:580۔شعب الایمان للبیھقی:173/6،حدیث:7822۔الکنی للبخاری،ص:55،(مختصرا)۔)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتوں کو جب عین راستے کے درمیان چلنے سے اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ اس سے معاشرتی فساد جنم لیتا ہے، تو آزادانہ اختلاط اور میل جول کو کیونکر جائز کہا جا سکتا ہے؟

7: ابوداؤد طیالسی وغیرہ میں ہے، جناب نافع حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد بنائی تو اس میں عورتوں کے لیے ایک علیحدہ دروازہ خاص کر دیا اور فرمایا: (لا يلج من هذا الباب من الرجال احد) ’’اس دروازے سے کوئی مرد نہ گزرے۔‘‘ (مسند الطیالسي،ص:251،حدیث:1829۔) تاریخ کبیر بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا تدخلوا المسجد من باب النساء) ’’مسجد میں آتے ہوئے عورتوں کے دروازے سے مت داخل ہو۔‘‘ (التاریخ الکبیر للطبرانی:60/1وسنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب فی اعتزال النساءفی المساجد عن الرجال،حدیث:464۔)

آپ علیہ السلام نے مسجد میں آنے جانے کے اوقات میں دروازوں میں اختلاط سے منع فرمایا ہے، تاکہ اختلاط کا راستہ ہی بند ہو جائے۔ جب مسجد کے دروازوں کا یہ حکم ہے تو باقی مقامات پر بدرجہ اولیٰ منع ہو گا۔

8: صحیح بخاری میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام کہتے تو سلام پورا ہونے پر عورتیں اٹھ کھڑی ہوتیں اور آپ علیہ السلام کچھ دیر اپنی جگہ پر تشریف رکھتے، حتیٰ کہ عورتیں روانہ ہو جاتیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو مرد بھی اٹھتے تھے۔ (صحیح بخاری،کتاب صفة الصلاۃ،باب انتظار الناس قیام الامام العالم،حدیث:828وایضا،باب مایتخیر من الدعاءبعد التشھد ولیس بواجب،حدیث:802وایضا،باب مکث الامام فی مصلاۃبعدالسلام،حدیث:812،ایضا،باب صلاۃ النساء خلف الرجال،حدیث:832۔)

اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہے کہ نمازوں کے بعد راستوں میں اختلاط منع ہے تو اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی منع ہے۔

9: معجم کبیر طبرانی میں ہے، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی تم میں سے اپنے سر میں لوہے کی سوئی مار لے، یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ کسی اجنبی عورت کو مس کرے جو اس کے لیے حلال نہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:211/20،حدیث:486۔)

علامہ ہیثمی مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ اور علامہ منذری نے الترغیب والترہیب میں کہا: اس کے رجال ثقات ہیں۔

10: طبرانی میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لان يزحم رجل خنزيرا متلطخا بطين وحمأة خير له من أن يزحم منكبه منكب امرأة لا تحل له)

’’تم میں سے کوئی بدبودار کیچڑ سے لت پت خنزیر سے ٹکرائے یہ اس کے لیے بہت بہتر ہے بجائے اس کے کہ اس کا کندھا کسی عورت کے ساتھ ٹکرائے جو اس کے لیے حلال نہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:205/8،حدیث:7830۔)

یہ احادیث ثابت کرتی ہیں کہ مرد کو کسی غیر محرم عورت کے ساتھ مس ہونا کسی طرح جائز نہیں، خواہ درمیان میں کوئی حائل ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ اس کے اثرات اور نتائج بہت برے ہیں۔ اسی لیے مرد و زن کا اختلاط ممنوع ہے۔

تو جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط میں کوئی فتنہ نہیں ہوتا، یہ محض ان کا اپنا خیال ہے ورنہ قرآن کریم اور احادیث کے دلائل جو اوپر بیان ہوئے ہیں، ان سے واضح ہے کہ ایسے آزادانہ اور بے باک اختلاط اور میل جول کا نتیجہ سوائے فتنے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے صاحب شریعت نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ناجائز قرر دیا ہے۔ ہاں البتہ جہاں اشد ضرورت ہو وہاں اس کی اجازت ہو گی جیسے کہ حرم مکی اور مدنی میں عبادات کے مواقع پر ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان مسلمانوں کو ہدایت دے جو راہ مستقیم سے بھٹک رہے ہیں، اور جو راہ راست پر ہیں انہیں ثابت قدم رکھے اور ان کے حکام کو توفیق دے کہ بھلائی کے کام کریں، برائی سے بچیں اور احمق لوگوں کا ہاتھ روکیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا، قریب اور دعا قبول کرنے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 838

محدث فتویٰ

تبصرے