السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث نبوی (لا تصاحب الا مومنا ۔۔۔الخ) "ہمیشہ کسی مومن ہی کی صحبت اختیار کر اور تیرا کھانا کوئی متقی ہی کھائے۔" اس حدیث کا کیا مفہوم ہے؟ اور اس کے کیا حدود ہیں کہ میں کسی مسلمان کو اپنے گھر میں داخل نہ کروں اور اسے کھانا نہ کھلاؤں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے اس کا دستور زندگی واضح فرمایا ہے۔ اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صالح مومن کے علاوہ کسی کو کھانا کھلانا جائز نہیں ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ آپ کا اختلاط اور دلی میل جول ہونا اور کسی مناسبت سے کسی کو کھانا کھلانا خواہ وہ کافر ہو یا فاسق، دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو کھانا کھلانا یقینا جائز ہے لیکن دستور زندگی نہیں ہونا چاہئے۔ جیسے کہ دوسری حدیث میں ہے:
" مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ،فهو مِثْلُهُ "
’’جو کسی مشرک کے ساتھ اشتراک و میل جول رکھے، وہ اس کی مانند ہو گا۔‘‘ (سنن ابي داود،کتاب الادب،باب من یومر ان یجالس،حدیث:4832وسنن الترمذي،کتاب الزھد،باب صحبة المومن،حدیث:2305صحیح ابن حبان:314/2،حدیث:554۔)
ایک اور حدیث ہے:
"الْمُسْلِمُ وَالْمُشْرِكُ لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا"
’’مسلمان اور مشرک کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہیں آنی چاہئیں۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب الجھاد،باب فی الاقامة بارض الشرک،حدیث:2787والمعجم الکبیر للطبراني:251/7،حدیث:7023۔)
مقصد یہ کہ ان کی سکونت ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب