السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر امتحان کے دوران میں نماز باجماعت کا وقت آ جائے تو کیا کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ شخص جو ایسے سکول میں داخل ہوا ہے جس کا نظام اور پروگرام شریعت سے موافق اور مطابق نہیں ہے تو نتیجہ یقینا خلاف شریعت ہی ہو گا۔ جو شخص شریعت کا پابند رہنا چاہتا ہے اسے ایسی تعلیم اور ایسے خلاف شریعت نظام کے ساتھ منسلک ہی نہیں ہونا چاہئے اور اگر وہ یہ کرتا ہے۔ تو پھر اس قسم کے سوال کے جواب کا حق دار بھی نہیں ہے۔ آدمی اپنے تعلیم میں لگائے گئے سالوں کو ضائع بھی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے آدمی کو ابتدا ہی سے صحیح علمی اور شرعی انداز اختیار کرنا چاہئے کیونکہ جس کی بنیاد صالح ہو گی تو تعمیر بھی صالح ہو گی اور جس کی بنیاد فاسد ہو گی اس کی تعمیر بھی فاسد ہو گی۔ ([1])
[1] مترجم عرض کرتا ہے:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج تاثر یامی روددیوارکج
فضیلۃالشیخ رحمہ اللہ کا جواب مسلمان معاشرے اور مسلمان ادارے اور مسلمان حکومتی نظام کی روشنی میں ہے۔مگر جس مصیبت میں اب ہم گرفتار ہیں اس صورت میں فقہی قاعدہ ہے:((الضرورات تبیح المحظورات۔))’’اہم ضرورتوں کے تحت بعض ممنوعات مباح ہوجاتی ہیں۔"سوال میں مذکورہ مجبوری کی صورت میں قبل ازجماعت نمازپڑھ لینا یاجمع کرلینا ان شاءاللہ جائز ہوگا یا تاخیر کرلینا بھی جائز ہے اگر وقت نہ نکل جائے۔جیسے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استحاضہ والی عورت کو عذر کی وجہ سے جمع بین الصلاتین کی اجازت دی ہے۔لیکن کسی وقت میں نماز بالکل ہی ضائع ہوتی ہو تو یہ حرام اور کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب