السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پرائمری شعبہ میں لڑکوں کو خواتین پڑھائیں، ایک خطرناک تجویز؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اخبار المدینہ کی اشاعت نمبر 3898 مؤرخہ 30/2/1397ھ میں شائع شدہ ایک فیچر بعنوان وجها لوجه "روبرو" ملاحظہ ہوا جو نورہ بن عبداللہ نے لکھا ہے۔ اس میں نورہ اوراس کے ساتھیوں نے کلیۃ التربیہ جدہ کی پرنسپل فائزہ کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ اسے تعجب ہے کہ خواتین معلمات پرائمری حصہ میں لڑکوں کو کیوں نہیں پڑھاتی ہیں جس میں نورہ نے بھی تائید کی ہے۔ اپنے اس موقف کے انہوں نے کچھ دلائل بھی دیے ہیں۔ بہرحال میں ان خواتین کا شکرگزار ہوں کہ وہ بچوں کی تعلیم کا موضوع زیر بحث لائیں اور وہ ہمارے بچوں کے متعلق بہتری کا سوچتی ہیں۔
مگر میں اس تحریر میں پیش کی گئی تجویز کے نقصانات اور غلط نتائج سے آگاہ کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ عورتیں پرائمری شعبہ میں لڑکوں کو پڑھائیں۔ کیونکہ اس سے لڑکے لڑکیوں میں اختلاط ہو گا، جبکہ یہ لڑکے اور لڑکیاں سمجھدار اور "مراہق" یعنی قریب البلوغ ہو چکے ہوتے ہیں۔ بہت سے بچے اس عمر ہی میں سلوکوں میں داخلہ لیتے ہیں اور کئی تو بالغ ہو چکے ہوتے ہیں۔ دس سال کی عمر میں بچہ مراہق یعنی خاصا سمجھدر ہو چکا ہوتا ہے اور وہ عورتوں کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس جیسے بچے کی شادی کر دینا بھی ممکن ہوتا ہے اور وہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو مرد کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ابتدائی مرحلہ میں اختلاط کا نتیجہ دوسرے مراحل میں بھی بڑھے گا اور پھر یقینا تمام مراحل میں یہی کچھ ہو جائے گا۔
اور مخلوط تعلیم جن ملکوں میں ہو رہی ہے، وہ لوگ اس کے غلط، گندے اور برے نتائج بھگت رہے ہیں۔ جن لوگوں کو کچھ دینی بصیرت حاصل ہے اور دینی دلائل سے بھی وہ بہرہ ور ہیں، اور لڑکے لڑکیوں کی نفسیات سے بھی آگاہ ہیں وہ ان حقائق سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔
یہ تجویز جو شیطان اور اس کے چیلوں نے فائزہ اور نورہ کے جی میں ڈالی ہے، وہ یقینا ہمارے اسلام دشمن لوگوں کو خوش کرنے والی ہے۔ وہ لوگ خاموشی سے بلکہ علی الاعلان بھی اس کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔
میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ دروازہ مضبوطی سے بند کیا جائے، اور ہمارے لڑکے تمام مراحل میں مرد اساتذہ کے زیر تعلیم ہی رہنے چاہئیں۔ ہماری لڑکیاں، خواتین ہی سے تعلیم حاصل کریں۔ ہمیں ازحد محتاط رہنا چاہئے اور اپنے بچے اور بچیوں کے لیے بھی حساس ہونا چاہئے، اور یہ تجویز اپنے دشمنون ہی پر پلٹ دینی چاہئے۔ ہمیں ہماری محترم معلمات کافی ہیں جو ہماری بیٹیوں کو تمام مراحل میں تعلیم دے سکتی ہیں اور اس میدان میں اخلاص اور صدق و ثبت کے ساتھ اپنی صلاحیتیں خرچ کر رہی ہیں۔
اور معلوم ہونا چاہئے کہ لڑکوں کی تعلیم دینے کے لیے مرد اساتذہ زیادہ لائق اور باصلاحیت ہیں۔ خواتین کے مقابلے میں وہ زیادہ وقت دے سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پرائمری حصہ میں یا اس سے اوپر لڑکے ہمیشہ مرد اساتذہ ہی سے ہیبت میں رہتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں اور کماحقہ ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں، بمقابلہ اس کے جو عورتوں سے ہوتا ہے۔ اس طرح سے انہیں مردانہ اخلاق و کردار، عزت و وقار، صبر اور برداشت اور اظہار قوت کا درس بھی ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح طور سے ثابت ہے کہ:
’’اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو، اگر نہ پڑھیں اور دس سال کے ہو جائیں تو ان کو سزا دو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔‘‘ (سنن ابي داود،کتاب الصلاة،باب متي یومر الغلام بالصلاة،حدیث:495۔مسند احمد بن حنبل:180/2،حدیث:6689،مصنف ابن ابی شیبة:304/1،حدیث:3482۔)
اس حدیث شریف میں لڑکے اور لڑکیوں کے اختلاط کی خرابی سے متنبہ کیا گیا ہے اور تمام مراحل میں اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ اس کے دلائل قرآن، سنت اور حالات حاضرہ میں اس قدر زیادہ ہیں کہ یہاں اختصار کے پیش نظر انہیں دہرانا نہیں چاہتا۔ اور یہ سب امور ہماری حکومت، وزیر تعلیم اور تعلیم البنات کے سربراہ اور دیگر حضرات کے علم میں ہیں اور تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان اعمال کی توفیق دے جس میں امت کی اصلاح اور اس کی نجات ہے اور ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور قریب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب