السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں آیا ہے کہ آدمی نماز میں اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔ کیا اس سے مراد مسجد میں کسی خاص جگہ بیٹھنا ہے یا سجدہ میں جانے کی ہئیت مراد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شاید سائل کے ذہن میں دو حدیثیں ایک دوسرے سے خلط ہو گئی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ:
"نَهَى رسول الله صلى الله عليه و سلم فِي الصَّلَاةِ عَنْ ثَلَاثٍ: نَقْرِ الْغُرَابِ، وَافْتِرَاشِ السَّبُعِ، وَأَنْ يُوطِنَ الرَّجُلُ الْمَقَامَ الْوَاحِدَ كَإِيطَانِ الْبَعِيرِ"
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تین باتوں سے منع فرمایا ہے: کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا، درندے کی طرح ہاتھ بچھا کر بیٹھنا اور یہ کہ کہ آدمی کوئی جگہ خاص کر لے جیسے کہ اونٹ بنا لیتا ہے۔‘‘(سنن ابي داود،کتابالصلاة،باب صلاة من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود،حدیث:826وسنن النسائ،کتاب صفة الصلاة،باب النھي عن نقرۃ الغراب،حدیث:1112و سنن ابن ماجہ،کتاب اقامة الصلاة و السنة فیھا،باب ما جاء فی توطین المکان فی المسجد،حدیث:1429مسند احمد بن حنبل:428/3،حدیث:15572)فتویٰ میں مذکورہ الفاظ مسنداحمدکے ہیں۔(عاصم))
یعنی وہ ہمیشہ کسی ایک ہی جگہ بیٹھے کہ مسجد میں آنے والا آئے تو اسے وہیں پائے، اور یہ شخص بھی پسند کرے کہ اسے اسی جگہ دیکھا جائے۔ مگر یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
اور اس کے مقابل صحیح طور پر ثابت ہے کہ:
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تھے جس کے پاس قرآن مجید رکھے ہوتے تھے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کوشش کر کے اس ستون کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاري،ابواب سترۃ المصلی،باب الصلاة الی الاسطوانہ،حدیث:480وصحیح مسلم ،کتاب الصلاة،باب ونو المصلي من السترة،حدیث:509و مسند احمد بن حنبل:48/4،حدیث:16564و السنن الکبری للبیھقي:271/2،حدیث:3284.)
دوسرا مسئلہ سجدہ میں جانے کی ہئیت کا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ، فَلا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ "
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرنے لگے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ بیٹحتا ہے، چاہئے کہ پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھے پھر اپنے گھٹنے۔‘‘ (سنن ابي داود،کتاب الصلاة،باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ،حدیث:840و سنن النسائي،کتاب صفة الصلاة،باب اول ما یصل الی الارض من الأنسان فی السجود،حدیث:1091و سنن الترمذي،ابواب الصلاة،باب وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود(باب آخر منہ)،حدیث:269)فتویٰ میں مذکور الفاظ سنن ابی داود اور مسند احمدکے ہیں۔)
امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر بہت سے ائمہ حدیث اس کے قائل ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اسے واجب قرار دیا ہے، اور یہ کہ جو یہ نہ کرے اس کی نماز باطل ہے۔ امام اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھا کرتے تھے۔ جمہور کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ بندہ پہلے اپنے گھٹنے رکھے، اس کے بعد اپنے ہاتھ۔ ان کا استدلال حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے:
قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا سَجَدَ، يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ "
’’کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سجدہ کرتے تو آپ پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ رکھتے، اور جب اٹھتے تو پہلے اٹھاتے پھر گھٹنے۔‘‘(سنن الترمذي،ابواب الصلاة،باب وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود،حدیث:268سنن ابي داؤد،کتاب الصلاة،باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ،حدیث:838و سنن النسائي،کتاب صفة الصلاۃ،باب اول مایصل الی الارض من الأنسان فی سجودہ،حدیث:1089 سنن ابن ماجہ،کتاب اقامة،الصلاة،باب السجود،حدیث:882،سنن الدارمی:347/1،حدیث:1320)فتویٰ میں مذکورہ الفاظ ترمذی اور سنن الدارمی کے ہیں دیگر میں’’یضع‘‘ کی جگہ’’وضع‘‘ہے۔
مگر اس حدیث کا مدار شریک بن عبداللہ قاضی پر ہے، جو سئي الحفظ ہے، اور اس قسم کی سنتوں میں اس کا تفرد قابل قبول نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اس مقام پر اس حدیث میں امام ابن القیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد میں) ایک اور بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کے بقول اس حدیث کے آخری حصے کے الفاظ راوی سے آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق گویا اصل روایت یوں تھی (ويضع يديه ثم ركبتيه) کیونکہ اگر آدمی پہلے ہاتھ رکھے اور گھٹنے بعد میں رکھے تو یہ عین اونٹ کا بیٹھنا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے (یہاں کوئی قلب نہیں ہوا بلکہ) اس حدیث کی ہم معنی ایک اور حدیث دارقطنی اور حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع يديه ثم ركبتيه
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو پہلے اپنے ہاتھ رکھتے تھے پھر اپنے گھٹنے۔‘‘
یہ حدیث بقول علامہ البانی رحمہ اللہ علیٰ شرط مسلم صحیح ہے اور اس مسئلہ میں قول فیصل ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے پہلے اور آخری حصے میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
ابن القیم رحمہ اللہ جو یہ کہہ دیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں، درست نہیں۔ (یہ عبارت اس طرح ہے"ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ کہنا درست نہیں کہ کسی اہل لغت نے نہیں کہا کہ اونٹ کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں،کیونکہ ابن القیم کا موقف ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اس کی پچھلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں،اور کسی اہل لغت نے یہ نہیں کہا کہ اس کے گھٹنے اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔
بلکہ اہل لغت کہتے ہیں کہ (وركبتا البعير فى يديه) (الازہری) اونٹ کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔ ابن سیدہ جو بڑے لغوی عالم ہیں ان کا کہنا ہے کہ:
(كل ذات اربع فركبتاه فى يديه و عقباه فى رجله)
’’ہر چوپائے کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں اور اس کی ایڑیاں پچھلی ٹانگوں میں ہوتی ہیں۔‘‘
اور اس سے بڑھ کر صحیح بخاری میں حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت میں بیان ہوئی ہے کہ جب انہوں نے قبل از اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تعاقب کیا تھا ۔۔ کہا: ’’۔۔ تو میرے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے حتیٰ کہ گھٹنوں تک اس میں چلے گئے۔۔‘‘(حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا’’ساخت یدافرسی‘‘میرے گھوڑے کے ہاتھ گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔فاضل مترجم سے’’ہاتھ‘‘کی جگہ’’پاؤں‘‘سہواً لکھا گیا۔واللہ اعلم۔حوالہ کے لیے دیکھیے:(صحیح بخاري،کتاب فضائل الصحابة،باب ھجرة النبيﷺ واصحابہ الی المدینة،حدیث:3693ومسند احمد بن حنبل:175/4،حدیث:17627۔المعجم الکبیر للطبراني:132/7،حدیث:6601صحیح ابن حبان:14/184،حدیث:6280۔)
اور سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ خالص عربی آدمی ہیں جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ یہ دلیل ہے کہ گھوڑے اور اونٹ کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔
اور نماز میں سجدہ میں جانے کی صحیح و صواب مسنون شکل یہی ہے کہ بندہ پہلے اپنے ہاتھ رکھے اور پھر اپنے گھٹنے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ سجدہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھتے ہیں۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب