السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہت سی عورتیں ضرورت سے اور کبھی بلا ضرورت بھی بہت زیادہ بازار جاتی ہیں، اور ان کے ساتھ ان کا کوئی محرم بھی نہیں ہوتا، جبکہ بازار میں فتنے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ ان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کا اپنے گھر میں رہنا اس کے لیے انتہائی خیر کا باعث ہے، جیسے کہ حدیث میں آیا ہے: ' وبيوتهن خير لهن' اور اسے باہر آنے جانے کی کھلی چھوٹ دینا ان قواعد و ضوابط کے خلاف ہے جو شریعت نے اس عورت کے تحفظ اور فتنوں سے بچاؤ کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اور مردوں کے لیے ضروری ہے کہ فی الواقع مرد ثابت ہوں۔ اللہ نے فرمایا ہے:
﴿الرِّجالُ قَوّٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ...﴿٣٤﴾... سورةالنساء
’’مرد عورتوں کے حاکم نگہبان ہیں، بسبب اس کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہوئی ہے۔‘‘
اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں میں بھی دشمنان دین کی تقلید میں گھر کی سرداری و سربراہی عورتوں کے ہاتھ میں آ رہی ہے اور مردوں کے معاملات کی یہ عورتیں نگہبان اور منظم بن رہی ہیں۔ اور تعجب ہے کہ یہ لوگ ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ افسوس ہے ایسی ترقی اور تہذیب پر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ قوم ہرگز فلاح اور کامیاب نہیں ہو سکتی جنہوں نے اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کر دیے ہوں۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب المغازي،باب کتاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم الی کسري وقیصر،حدیث:4163وسنن الترمذي،کتاب الفتن،باب ماجاءفی لانھی عن سب الریاح(باب منہ)،حدیث:2262وسنن النسائي،کتاب آداب القضاة،باب النھي عن استعمال النساءفی الحکم،حدیث:5388۔)
ہم ان عورتوں کے متعلق یہی جانتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر کسی کم عقل اور ناقص دین کو نہیں پایا جو کسی سمجھدار بندے کی عقل کو مار لینے والی ہو۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الحیض،باب ترک الحائض الصوم،حدیث:298،وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات،حدیث:79،وصحیح ابن خزیمة:368/3،حدیث:2045۔)
الغرض مردوں پر واجب ہے کہ جو سربراہی اور قوامیت اللہ نے ان کو دی ہے، اس کو عمل میں لائیں۔
اگر کہیں معاملہ اس کے برعکس ہو تو بھی برا ہے کہ آدمی اس قدر بدخلق بن جائے کہ عورت کو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے سے بھی منع کر دے جیسے کہ ماں، باپ، بھائی، چچا اور ماموں وغیرہ رشتہ دار ہوتے ہیں، جہاں کوئی فتنہ نہیں ہوتا، اور اسے کہنے لگے کہ تو ہرگز کسی طرح گھر سے باہر نہیں نکل سکتی، تجھے گھر ہی میں پابند رہنا پڑے گا، اور (غلط طور پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنائے: (هن عورن عندكم) ’’یہ تمہاری اسیر اور پابند ہیں۔‘‘ (سنن الترمذي،کتاب الرضاع،باب حق المراة علی زوجھا،حدیث:1163۔) (اور یہ کہے: ) تو میری اسیر ہے، تو کہیں آ جا نہیں سکتی اور نہ کوئی تیرے پاس آ سکتا ہے اور نہ تو کسی دینی بہن سے مل سکتی ہے وغیرہ، تو یہ باتیں غلط ہیں۔ دین اور دونوں کے بین بین ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب