السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری والدہ فوت ہو گئی ہے۔ اب میرے لیے اس کے ساتھ حسن سلوک کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) ۔۔ اس کے لیے اللہ سے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتی رہا کریں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَاخفِض لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحمَةِ وَقُل رَبِّ ارحَمهُما كَما رَبَّيانى صَغيرًا ﴿٢٤﴾... سورةالإسراء
’’عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو جھکائے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘
(2) ۔۔ اس کے لیے بہت زیادہ استغفار کیا کریں۔ مسند احمد اور بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جنت میں میت کے درجات بلند کیے جاتے ہیں تو وہ پوچھتی ہے، اے میرے رب! یہ کیا ہے؟ تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: تیرے بیٹے نے (بیٹی نے) تیرے لیے استغفار کیا (اور معافی مانگی) ہے۔‘‘ (الادب المفرد للبخاری:28/1،حدیث:36۔)
(3) ۔۔ اللہ کا قرض ادا کرنا: بالفرض اس کے ذمے روزے رہتے ہوں تو اس کا ولی یا ہر روزے کے بدلے اس کی طرف سے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے یا خود اس کی طرف سے روزے رکھے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الصوم،باب من مات وعلیہ صوم،حدیث:1851وصحیح مسلم،کتاب الصیام،باب قضاءالصیام عن المیت،حدیث:1147وسنن ابي داود،کتاب الصیام،باب فیمن مات وعلیہ صیام،حدیث:2400ومسند احمد بن حنبل:334/8،حدیث:3569۔)
بخاری و مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کا قرض زیادہ لائق ہے کہ ادا کیا جائے۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الصوم،باب من مات وعلیہ صوم،حدیث:1852وصحیح مسلم،کتاب الصیام،باب قضاءالصیام عن المیت،حدیث:1148وسنن ابي داؤد،کتاب الایمان والنذور،باب ماجاءفیمن مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ،حدیث:3310۔)
حج بھی ایک مبارک عمل ہے، جو آپ اس کی طرف سے ادا کر سکتی ہیں۔
(4) ۔۔ اگر بندوں کے قرض باقی ہوں تو ادا کیے جائیں۔
(5) ۔۔ وہ لوگ جو اس سے محبت کرنے والے تھے، یا اس کو ان سے محبت تھی، آپ بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرتی رہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ راستے میں ایک اعرابی دیہاتی سے ملے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ اونٹ پر سوار تھے، ان کے سر پر پگڑی تھی، تو ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی سواری سے اتر آئے، اس اعرابی سے گلے ملے، اپنی پگڑی اس کے سر پر رکھ دی اور اسے اپنی سواری پر سوار کرا لیا۔ جب وہ اعرابی چلا گیا تو ان سے کہا گیا: اے ابو عبدالرحمٰن! اللہ آپ پر رحم کرے، یہ بدوی اور دیہاتی لوگ اس سے کہیں کم تر پر راضی ہو جاتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ اس کا والد (میرے والد) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا تھا، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، فرماتے تھے کہ: ’’سب سے بڑھ کر نیکی یہ ہے کہ بندہ اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کے اہل محبت سے صلہ رحمی کرے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب البروالصلة والاداب،باب فضل صلة الصدقاءالاب والام ونحرھما،حدیث:2552۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب