السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں بیمار رہتی ہوں، ضیق النفس کی مریضہ ہوں، اس سے پہلے ڈاکٹر کے کہنے پر دو بار اسقاط کرا چکی ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ بچے آپریشن سے ہوں گے، اور یہ اسقاط شوہر کی رضامندی سے کرایا تھا۔ تو کیا یہ حرام ہے یا اس میں کفارہ وغیرہ واجب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) ۔۔ حمل ساقط کرانا جائز نہیں ہے۔ جب حمل ٹھہر جائے تو اس کی حفاظت کرنا واجب اور اسے نقصان پہنچانا یا کسی ذریعے سے اسے ساقط کرنا کرانا حرام ہوتا ہے۔ یہ ایک امانت ہے جو اللہ نے اس ماں کے شکم میں رکھی ہے۔ تو اس کا ایک حق ہے، اس کو کسی طرح کا ضرر پہنچانا یا تلف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس بارے میں طبیب اور ڈاکٹر کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ ایک شرعی حکم ہے اور شرعی دلائل کی رو سے حمل ساقط کرانا حرام ہے۔ اور یہ مسئلہ کہ ولادت آپریشن ہی سے ہو گی، تو یہ کوئی ایسا سبب نہیں ہے جس سے حمل ساقط کرانا جائز ہو جائے۔ بہت سی عورتیں آپریشن کی کیفیت سے دوچار ہوتی اور اسی انداز میں ان کے ہاں ولادت ہوتی ہے۔ بہرحال ڈاکٹر اور طبیب انسان ہے، اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے، اور درست بھی کہتے ہیں۔ مگر اس بات میں اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
(2) ۔۔ دوسرا مسئلہ کفارے کا۔ اگر حمل کے جنین میں روح پڑ چکی تھی اور بچہ حرکت کرنے لگ گیا تھا، پھر اسے ساقط کرایا گیا اور وہ مر گیا، تو اس طرح یہ عورت ایک جان کی قاتل ہے۔ اس پر کفارہ واجب ہے اور وہ ہے ایک گردن کا آزاد کرنا۔ اگر نہ پائے تو دو ماہ کے متواتر روزے رکھنا، اللہ کے ہاں توبہ کی قبولیت کے لیے۔ اور یہ چار ماہ میں ہوتا ہے، کہ بچے میں جان پڑ جاتی ہے۔
بہرحال یہ معاملہ بہت بڑا ہے، اس میں تساہل کرنا جائز نہیں۔ اگر عورت بیماری کے باعث حمل کی متحمل نہ ہو سکتی ہو تو اسے چاہئے کہ مانع حمل ادویات استعمال کرے، جس سے حمل ایک مدت تک کے لیے مؤخر ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ اپنی صحت اور طاقت میں لوٹ آئے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب