السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے گھر میں غیر مسلم خادمائیں ہیں۔ کیا مجھے ان سے پردہ کرنا واجب ہے؟ کیا ان سے کپڑے دھلوائے جا سکتے ہیں، پھر میں ان میں نماز پڑھ لوں؟ اور کیا میں انہیں ان کے دین کی حقیقت اور اس کی کمزوری بتاؤں اور دین اسلام کی فضیلت واضح کروں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علماء کے صحیح تر قول کے مطابق غیر مسلم عورتوں سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے۔ وہ دیگر عورتوں کی طرح ہیں۔ ان سے کپڑے اور برتن دھلوانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتیں تو ان کے ساتھ معاملہ ختم کرنا واجب ہے۔ کیونکہ یہ جزیرۃ العرب ہے، اس میں صرف دین اسلام ہی ہونا چاہئے۔ یہاں جو بھی کارکن اور خادم مرد یا عورتیں بلوائے جائیں صرف مسلمان ہی بلوائے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی ہے کہ یہاں جزیرۃ العرب سے مشرکوں کو نکال باہر کیا جائے۔ یہاں دو دین نہیں ہو سکتے۔ جزیرۃ العرب اسلام کا منبع و مرکز ہے، اسلام کا سورج یہیں طلوع ہوا۔ اس لیے یہاں سوائے دین حق اسلام کے اور کوئی دین باقی نہیں رکھا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حق کی پیروی اور اس پر ثابت قدمی کی اور دوسروں کو دائرہ اسلام میں آ جانے اور اس کے خلاف کو چھوڑ دینے کی توفیق دے۔
آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ان خادمات کو اسلام کی دعوت دیں، اسلام کے محاسن و فضائل بیان کریں، ان کے دین کی خرابیاں اور کمزوریاں واضح کریں، اور یہ کہ دین اسلام نے باقی سب دینوں کو منسوخ کر دیا ہے اور اسلام ہی وہ دین حق ہے جو تمام انبیاء کرام لے کر آتے رہے ہیں، اور اس کے مطابق کتابیں نازل ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ ...﴿١٩﴾... سورةآل عمران
’’اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔‘‘
اور ضروری ہے کہ آپ علم و بصیرت کے ساتھ گفتگو کریں۔ کیونکہ علم کے بغیر اللہ تعالیٰ اور اس کے دین میں کچھ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطـٰنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٣﴾... سورةالاعراف
’’کہہ دیجیے کہ میرے رب نے ان تمام فحش باتوں کو حرام کیا ہے جو علانیہ ہوں اور پوشیدہ ہو، اور ہر گناہ کی بات کو، اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو، اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور اس بات کو بھی کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کی تم سند نہ رکھتے ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے علم کے بغیر بات کرنے کو سب سے بڑھ کر قرار دیا ہے، اور یہ دلیل ہے کہ اس کی حرمت بڑی سخت اور اس کے نتائج خطرناک ہیں اور فرمایا:
﴿قُل هـٰذِهِ سَبيلى أَدعوا إِلَى اللَّهِ عَلىٰ بَصيرَةٍ أَنا۠ وَمَنِ اتَّبَعَنى وَسُبحـٰنَ اللَّهِ وَما أَنا۠ مِنَ المُشرِكينَ ﴿١٠٨﴾... سورةيوسف
’’کہہ دیجیے کہ میری راہ یہی ہے، میں اور میرے فرمانبردار، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ، اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
سورہ بقرہ میں اللہ عزوجل نے بتایا ہے کہ علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے متعلق کچھ کہنا، ایسا کام ہے جس کا حکم شیطان دیتا ہے۔ فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ كُلوا مِمّا فِى الأَرضِ حَلـٰلًا طَيِّبًا وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّما يَأمُرُكُم بِالسّوءِ وَالفَحشاءِ وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ ﴿١٦٩﴾...سورة البقرة
’’ لوگو! زمین میں جو بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو، اور شیطانی راہ پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعاالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔‘‘
میں اللہ عزوجل سے اپنے لیے اور آپ کے لیے توفیق و ہدایت کی دعا کرتا ہوں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب