السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ نغمے جو دف پر گائے جاتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آج کل کے معروف نغموں کا نام بدل دیا گیا ہے اور لوگ انہیں اسلامی نغمے یا اسلامی ترانے کہنے لگے ہیں۔ اسلام میں دینی یا اسلامی نغموں کا کوئی تصور نہیں ہے، البتہ اسلامی اشعار کا بیان ضرور ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بھی ہے کہ: (إن من الشعر لحكمة) ’’بعض شعر حکمت بھرے ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الادب،باب مایجوزمن الشعر والرجز،حدیث:5793وسنن ابی داود،کتاب الادب،باب ماجاءفي الشعر،حدیث:5010وسنن الترمذي،کتاب الادب،باب ان من الشعر حکمة،حدیچ:2844وسنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب الشعر،حدیث:3755۔)
اور اگر ہم ان اشعار کو نغمے ترانے یا اسلامی نغمے اور ترانے کہنے لگیں تو سلف صالح میں یہ چیز نہیں ہے البتہ کچھ اشعار ضرور ہیں جو بڑے لطیف معانی کے حامل ہوں تو ان کا پڑھنا گانا جائز ہے، خواہ انفرادی طور پر پڑھے جائیں یا اجتماعی طور پر جیسے کہ شادیوں میں ہوتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق آتا ہے کہ وہ انصاریوں کی ایک شادی سے واپس آئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
هل غنيتم لهم، فإن الانصار يحبون الغناء
’’کیا تم نے ان کے لیے کچھ گایا بھی تھا؟ انصاریوں کو تو گانا بہت پسند آتا ہے۔‘‘
انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم کیا کہتے؟ فرمایا: مثلا یوں:
أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم
ولولا الحبة السمراء لم تسمن عذاريكم
’’ہم تمہارے ہاں آئے ہیں، تمہارے ہاں آئے ہیں، تم ہمارا اکرام کرو، ہم تمہارا اکرام کریں۔ اگر یہ سمراء گندم کے دانے نہ ہوتے تو تمہاری دوشیزائیں فربہ اندام نہ ہوتیں۔‘‘
تو یہ شعر ہے، مگر اسے دینی شعر نہیں کہہ سکتے بلکہ ایسے شعر ہیں جن میں ایک مباح کلام ہے، جس سے راحت نفس مطلوب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب