السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری کچھ ہمسائیاں ہیں جو غیر مسلم ہیں، مجھے ان کے بعض اعمال پر اعتراض بھی ہے تو ہمارا آپس میں ایک دوسرے کے پاس آنا جانا کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صفت میں آپ کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اگر اصلاح و خیر خواہی اور تعاون علی البر اور تقویٰ کی نیت ہے تو بہت اچھا عمل ہے۔ اس کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
"قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:«وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ، ،وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ "
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: واجب ہو گئی ہے میری محبت ان لوگوں کے لیے جو میری خاطر آپس میں محبت رکھتے ہیں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، میری خاطر ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں، اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اور ایک فرمان یوں ہے کہ:
’’سات قسم کے افراد ہوں گے کہ اللہ عزوجل انہیں اس دن اپنا سایہ عنایت فرمائے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کہیں کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الزکاة،باب الصدقة بالیمین،حدیث:1357وصحیح مسلم،کتاب الزکاة،باب فضل اخفاء الصدقة،حدیث:1031وسنن الترمذي،کتاب الزھد،باب الحب في اللہ،حدیث:2391وسنن النسائي،کتاب آداب القضاة،باب الامام العادل،حدیث:5380۔)
یہاں الفاظ اگرچہ ’’آدمیوں اور مردوں‘‘ کے ہیں مگر یہ بطور مثال کے ہے۔ اس کا حکم خواتین کو بھی شامل ہے۔ لہذا اگر کسی مسلمان عورت کی زیارت کسی مسلمان عورت سے یا عیسائی وغیرہ عورت سے ہو اور اس نیت سے ہو کہ اسے اللہ کے دین کی دعوت دینی ہے، تو یہ بہترین عمل ہے۔ اگر کوئی خاتون دوسری سے ملتی ہے اور اسے بے حجابی یا دیگر گناہوں سے روکتی ہے یا جن امور میں وہ کاہل اور سست ہو تو یہ قابل قدر عمل ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں آتا ہے: (الدين النصيحة) ’’دین خیرخواہی کا نام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان ان الدین النصیحة،حدیث:55سنن ابي داؤد،کتاب الادب،باب فی النصیحة،حدیث:4944سنن النسائي،کتاب البیعة،باب النصیحة للامام،حدیث:4197۔) اگر وہ قبول کرے تو الحمدللہ، اور اگر قبول نہ کرے تو پھر یہ میل ملاقات چھوڑ دے۔
لیکن اگر میل ملاقات اور باہمی آنے جانے کا مقصد ہی دنیا داری، لہو و لعب اور بے مقصد باتیں اور کھانا پینا ہو تو کافر عورتوں کے ہاں اس طرح سے جانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح سے اس مسلمان کے دین و اخلاق پر برا اثر پڑے گا۔ کیونکہ کفار ہمارے دشمن ہیں، ہم سے بغض رکھتے ہیں تو ہمیں قطعا روا نہیں ہے کہ انہیں اپنے جگری دوست بنائیں، سوائے اس کے کہ دعوت دین، ترغیب خیر اور تحذیرشر کی نیت سے ہو تو یہ ایک اہم کام ہے، جیسے کہ اوپر ذکر ہوا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبرٰهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ ...﴿٤﴾...سورة الممتحنة
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ اور اچھی پیروی ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک کہ تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ، ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب