سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(418) حاجی سے ملتے وقت کیا کہنا چاہیے..؟

  • 1873
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1323

سوال

(418) حاجی سے ملتے وقت کیا کہنا چاہیے..؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشکوٰۃ شریف جلد اول ص۲۲۳ میں ایک حدیث ہے :

«عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِﷺاِذَا لَقِيْتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْه وَمُرْه اَنْ يَسْتَغْفِرَلَکَ قَبْلَ اَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ فَاِنَّه مَغْفُوْرٌ لَّه رواه احمد»

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تو حاجی کو ملے تو اس کو سلام کہہ اور اس سے مصافحہ کر اور اس کو کہہ کہ وہ تیرے لیے استغفار کرے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کیونکہ اس کی بخشش ہو چکی ہے‘‘ یہ حدیث مسند امام احمد میں جلد دوم ص ۶۹ میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں آپ جناب اور حضرت الحافظ عبدالسلام صاحب دونوں سے گزارش ہے کہ

(1)سند کے لحاظ سے اس کی کیا اتھارٹی ہے ؟(2) عام فہم ترجمہ کے مطابق اس کا مفہوم کیا ہے ؟

جو میرے ذہن میں اشکال ہے اس کی وضاحت کرتا ہوں تاکہ آپ کو میرا مقصد سمجھ آ جائے۔ یہاں گھر میں داخل ہونے کی شرط لگائی گئی ہے یہ تو سمجھ میں بات آتی ہے کہ گھر میں داخل ہونے تک وہ مسافر تھا گھر پہنچ گیا سفر ختم ہوا لیکن مغفورلہ کا رتبہ اس کے ساتھ جب تک وہ کوئی گناہ نہیں کرتا قائم رہے گا یا گھر میں داخل ہوتے ہی وہ فضیلت بھی ختم ہو جائے گی ؟ گھر میں داخل ہونا کوئی گناہ کا کام تو نہیں ہے۔ امید ہے آپ مختصر مگر جامع تشریح فرما کر عنداللہ  اجر حاصل کریں گے؟

نوٹ: اگر ممکن ہو سکے تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اقوال کی روشنی میں حدیث کی سند کی تحلیل فرمانا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)  جس حدیث کے متعلق آپ نے دریافت فرمایا اس کی بابت محدث وقت فقیہ دوراں عالم ربانی شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ مشکوٰۃ کی تعلیق میں لکھتے ہیں : ’’واسنادہ ضعیف‘‘ (ص۷۷۸) شارح مشکوٰۃ صاحب مرعاۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’(رواہ أحمد) (ج۲ : ص۶۹،۱۲۸) بسند ضعيف ورمز السيوطی فی الجامع الصغير لحسنه ، وليس کما قال ففی سنده محمد بن عبدالرحمن ابن البيلمانی وهو ضعيف وقد اتهمه ابن عدی وابن حبان وممن جزم بضعفه الحافظ الهيثمی حيث قال (ج۴ : ۱۶) بعد ذکره : رواه أحمد وفيه محمد بن البيلمانی وهو ضعيف ۔ (ج۶ ص۳۱۰)‘‘

(2)جب یہ روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی جیسا کہ تفصیل کر دی گئی ہے تو اسکے ترجمہ ، مفہوم اور مطلب پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں تاہم اتنی بات ذہن میں رکھیں کہ «قَبْلَ اَنْ يَدْخُلَ بَيْتَه»« مُرهُ اَنْ يَسْتَغْفِرَ لَکَ»  کی ظرف ہے «فَاِنَّهُ مَغْفُوْرٌ لَّهُ » کی ظرف نہیں اس حدیث سے تو بوجہ ضعف  کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا البتہ صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج مبرور سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں چنانچہ بخاری ومسلم کی مرفوع حدیث ہے:

«مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ»(بخارى كتاب الحج باب فضل الحج المرور)

’’جس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کیا اور جماع اور نافرمانی خدا کی نہیں کی وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ‘‘

(3) صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے اہل مکہ کو ایک مکتوب لکھا جس میں وہ ان کو ایک خاص مقصد وغرض کے تحت رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے ان پر حملہ کرنے کے منصوبے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے قصہ مختصر ان کا یہ مکتوب پکڑا گیا انہیں بلایا گیا جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غیظ وغضب میں آ گئے رسول اللہﷺ نے انہیں سمجھایا یہ حاطب رضی اللہ عنہ غزوئہ بدر میں شریک وحاضر تھے اور بدریوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ»(بخارى-كتاب التفسير-سورة الممتنحة)دیکھئے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی یہ لغزش  بعد کی ہے مگر اس کی مغفرت ومعافی کا اعلان پہلے ہو چکا ہے اس لیے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺ میں کسی کے متعلق مغفرت ومعافی کا اعلان آ جائے تو اس سے سابقہ ولاحقہ گناہوں کی مغفرت ومعافی ہی مراد ہوتی ہے الا یہ کہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺ میں کہیں اس کی تقیید وتوقیت وارد ہو جائے جیسا کہ حج میں گزرا ہے پھر روزہ وقیام رمضان میں اور دیگر کئی ایک اعمال صالحہ میں وارد ہوا ہے «غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»(متفق علیہ)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

حج و عمرہ کے مسائل ج1ص 297

محدث فتویٰ

 

تبصرے