السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی کو غیبت اور چغل خوری سے منع کریں، اور وہ بدلے میں برا بھلا کہنے لگے اور گالیاں دے، تو یہ کیسا ہے؟ کیا اس کے غصے کا ہمیں گناہ ہو گا؟ اگر یہ صورت والدین کے ساتھ ہو تو؟ کیا ہم انہیں اس سے منع کریں یا چھوڑ دیں کہ ہمیں ان سے کیا؟ ہماری رہنمائی فرمائیں، اللہ آپ کا بھلا کرے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمان کے ذمے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَيُقيمونَ الصَّلوٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكوٰةَ وَيُطيعونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ أُولـٰئِكَ سَيَرحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٧١﴾...سورة التوبة
’’ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے اور زکاۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں، امید ہے کہ اللہ ان پر رحم فرمائے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
اور اللہ عزوجل نے اس امت کی خاص صفت یہی بیان کی ہے کہ یہ لوگ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکتے ہیں:
﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ... ﴿١١٠﴾...سورة آل عمران
’’تم بہترین امت ہو، تمہیں لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے کہے، اگر اس کی بھی ہمت نہ ہو تو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان کون النھي عن المنکر من الایمان،حدیث:49سنن ابي داود،کتاب الصلاة،باب الخطبة یوم العید،حدیث:1140وسنن الترمذي،کتاب الفتن،باب تغییر المنکر بالید اوباللسان اوبالقلب،حدیث:2172۔)
علاوہ ازیں بھی بہت سی آیات اور احادیث ہیں جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کی گئی ہے اور جو لوگ اس بارے میں غفلت کریں ان کی مذمت ہے۔
تو آپ عورتوں پر واجب ہے، بلکہ ہر صاحب ایمان مرد اور عورت پر واجب ہے کہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، خواہ مقابل میں ناراضی کا اظہار ہی کرے یا گالی گلوچ ہی کرے، تو اس پر اسوہ رسول کے مطابق صبر کرنا چاہئے۔ فرمایا:
﴿فَاصبِر كَما صَبَرَ أُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ...﴿٣٥﴾...سورة الاحقاف
’’تو صبر کیجیے جیسے کہ باہمت رسولوں نے صبر کیا تھا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـٰبِرينَ ﴿٤٦﴾...سورة الانفال
’’اور صبر سے کام لو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اللہ عزوجل نے جناب لقمان حکیم کی نصیحت بھی نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے فرزند سے کہا تھا:
﴿يـٰبُنَىَّ أَقِمِ الصَّلوٰةَ وَأمُر بِالمَعروفِ وَانهَ عَنِ المُنكَرِ وَاصبِر عَلىٰ ما أَصابَكَ إِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ ﴿١٧﴾...سورة لقمان
’’اے میرے بیٹے! نماز قائم کر، نیکی کا حکم دیا کر اور برائی سے روک، اور (اس راہ میں) جو تکلیف آئے اس پر صبر سے کام لے، بلاشبہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کا خیر و صلاح پر مستقیم رہنا اولا اللہ عزوجل کی طرف سے ہوتا ہے اور پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے۔ اور اس میں شر و فساد اور مختلف قسم کی خرابیاں اور سزائیں اس سبب سے ہوتی ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معاملے میں غفلت ہوتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ لَا يُغَيِّرُونَهُ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ "
’’اگر لوگ برائی کو دیکھیں اور پھر اس کے ازالے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب لوگوں کو اپنی سزا کی لپیٹ میں لے لے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:1؍2،حدیث:1،صحیح ابن حبان:1؍540،حدیث:305ومسند ابي یعلي:1؍119،حدیث:131)
اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو بنی اسرائیل کے چلن سے متنبہ کیا اور ڈرایا ہے:
﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَروا مِن بَنى إِسرٰءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَريَمَ ذٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨﴾ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ فَعَلوهُ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩﴾... سورةالمائدة
’’بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد اور عیسیٰ کی زبان سے پھٹکار پڑ چکی ہے، اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے، بڑی بات کر بیٹھتے تو اس سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے۔ بےشک وہ برا کام کرتے تھے۔‘‘
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو، حکام ہوں ی رعایا، سب ہی کو یہ فریضہ بہترین انداز میں ادا کرنے کی توفیق دے اور ان کے تمام احوال کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو اس کے غضب و انتقام کے اسباب سے محفوظ رکھے۔ بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب