السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک طالبہ ہوں اور دوسری طالبات کے ساتھ ہاسٹل میں رہتی ہوں۔ اللہ نے مجھے ہدایت دی ہے اور بحمداللہ دینی تعلیمات کی پابند ہوں۔ مگر جب اپنے ماحول میں، بالخصوص اپنی ساتھی طالبات میں برائیاں دیکھتی ہوں تو بہت پریشان اور تنگ دل ہو جاتی ہوں۔ مثلا گانے سننا اور ایک دوسرے کی غیبت اور چغلی کھانا۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا ہے مگر کئی تو میرا مذاق اڑاتی ہیں، اور کئی کہتی ہیں کہ یہ نفسیاتی مریض ہے۔ جناب شیخ! براہ مہربانی میری رہنمائی فرمایے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کی ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ہو سکے، نرمی، عمدہ اخلاق اور بھلے انداز میں ان برائیوں کی نشاندہی کریں اور اس سے انہیں باز رہنے کی تلقین کرتی رہیں، اور اپنے علم کے مطابق اس بارے میں آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ پیش کریں، اور ان کے غلط اور حرام اعمال (گانے سننا، غیبت کرناا وغیرہ) میں ان کے ساتھ میت بیٹھیں، اور جہاں تک ہو سکے ان سے دور رہیں، حتیٰ کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں، جیسے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَإِذا رَأَيتَ الَّذينَ يَخوضونَ فى ءايـٰتِنا فَأَعرِض عَنهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ وَإِمّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيطـٰنُ فَلا تَقعُد بَعدَ الذِّكرىٰ مَعَ القَومِ الظّـٰلِمينَ ﴿٦٨﴾... سورةالانعام
’’اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو کہ ہماری آیتوں کو کریدتے ہیں، تو ان کے پاس سے سرک جا، یہاں تک کہ وہ دوسری بات میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان (یہ نصیحت) بھلوا دے تو یاد آنے کے بعد (ایسے) ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔‘‘
اورجب آپ انہیں اپنی طاقت و ہمت کے مطابق زبانی نصیحت کریں گے اور ان کے عمل سے علیحدہ اور دور رہیں گی تو پھر ان کا فعل آپ کو کوئی نقصان نہ دے گا اور نہ ان کی طعنہ زنی آپ کے لیے کوئی مضر ہو گی، جیسے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا عَلَيكُم أَنفُسَكُم لا يَضُرُّكُم مَن ضَلَّ إِذَا اهتَدَيتُم إِلَى اللَّهِ مَرجِعُكُم جَميعًا فَيُنَبِّئُكُم بِما كُنتُم تَعمَلونَ ﴿١٠٥﴾... سورةالمائدة
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو سنبھالو۔ جب تم خود ہدایت پر ہوئے تو گمراہ لوگ تمہیں کوئی ضرر نہیں دے سکیں گے۔ تم سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، تو جو تم عمل کر رہے ہو وہ تمہیں (اس کا بدلہ دے کر) بتا دے گا۔‘‘
اللہ عزوجل نے واضح فرمایا ہے کہ صاحب ایمان جب حق کا التزام کرے اور ہدایت پر مستقیم رہے تو گمراہ لوگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور یہ (التزام و استقامت) تبھی ہے جب بندہ برائی سے منع کرے اور خود حق پر ثابت قدم رہے اور بھلے انداز میں حق کی دعوت دے۔ اور بہت جلد ہے کہ وہ آپ کے لیے ان مشکلات سے نکلنے کی راہ پیدا کر دے گا اور آپ کی دعوت کے نتیجے میں انہیں بھی فائدہ دے گا، بشرطیکہ آپ اس حق پر صبر و ثبات سے کام لیں اور اس برائی کا انکار کرتی رہیں۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿ إِنَّ العـٰقِبَةَ لِلمُتَّقينَ ﴿٤٩﴾... سورة هود
’’بہترین انجام تقویٰ والوں ہی کے لیے ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَالَّذينَ جـٰهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ المُحسِنينَ ﴿٦٩﴾... سورةالعنكبوت
’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں، انہیں اپنے (قرب کی) راہیں دکھاتے ہیں، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کے اعمال کی توفیق دے، صبر و ثبات سے بہرہ ور فرمائے اور آپ سب گھر والوں، بھائیوں اور آپ کی سہیلیوں سب کو اپنے پسندیدہ اور رضامندی کے اعمال کی توفیق دے۔ بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور اپنے بندوں سے قریب ہے اور وہی سیدھی راہ پر چلانے والا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب