سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1112) نقصان ده مصنوعی چیزیں بنانے والے کارخانے میں کام کرنا

  • 18719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 871

سوال

(1112) نقصان ده مصنوعی چیزیں بنانے والے کارخانے میں کام کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک کارخانے میں کام کرتی ہوں جہاں خاص قسم کی ٹافیاں بنتی ہیں۔ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ اس کے اجزا اصل اور خالص ہیں، اس میں کوئی نقصان دہ مصنوعی (کیمیائی) چیز شامل نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے۔ میرا کام اس کا مرکب تیار کرنا اور پھر اس کی پیکنگ کرنا ہوتا ہے۔ تو اس مشکل کا کیا حل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا حل یہ ہے کہ آپ انہیں اس کام سے منع کریں۔ اگر وہ باز آ جائیں تو بہتر، ورنہ آپ یہ کام چھوڑ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا"

’’جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،کتاب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم: مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا ،حدیث:101سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب النھي عن الغش،حدیث:2225ومسند احمد بن حنبل:2؍50،حدیث:5113)

یا دوسرے الفاظ ہیں ’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا،حدیث:102وسنن الترمذي،کتاب البیوع،باب کراھیة الغش في البیوع،حدیث:1315السنن الکبری للبیھقي:5؍320،حدیث:10514)

اور جیسا کہ معلوم و معروف ہے کہ خالص اجزاء کی اشیاء مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ اس صورت میں مصنوعی اجزاء کی چیز کو خالص اور اصل کہہ کر فروخت کرنا، اس میں اپنے صارفین کو بھی دھوکہ دینا ہے، اور بسا اوقات یہ چیزیں کچھ لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ بھی ہوتی ہیں، بالخصوص جن کو ڈاکٹر نے ایسی مصنوعی اشیاء کے استعمال سے روکا ہو۔ اس طرح سے انہیں دھوکہ دینے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ بنانا بھی ہے۔ تو آپ کو ان کا شریک اور حصہ دار نہیں بننا چاہئے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...﴿٢﴾... سورةالمائدة

’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

(محمد بن عبدالمقصود)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 778

محدث فتویٰ

تبصرے