السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک واقعہ سنا ہے کہ نبی علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے آپ سے سلام کیا۔ اس موقعہ پر آپ نے اس عورت کے ہاتھ کو کھردرا سا پایا اور فرمایا: "کیا یہ ہاتھ مرد کا ہے یا عورت کا؟"
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: یہ قصہ کسی جاہل کا من گھڑت اور وضع کردہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ دیا ہے۔ بالخصوص عورتوں سے مصافحہ کے مسئلہ میں اس کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی (اجنبی) عورت کا ہاتھ نہیں چھوا، نہ بیعت کے لیے نہ کسی اور کام سے۔‘‘
جبکہ آپ معصوم بھی تھے اور بیعت میں مصافحہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے، مگر آپ علیہ السلام نے عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کا یہ کام نہ کرنا، جبکہ آپ معصوم ہیں، اور یہ موقع اس (مصافحہ) کا متقاضی بھی ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام دوسروں کے لیے حرام ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو معجم طبرانی میں بسند جید حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَهُ
’’تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کوئی سوئی چبھو دی جائے، یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:211/20،حدیث:486۔)
آپ ایسے لوگوں کی باتوں سے محتاط رہیں جنہیں دین کا کچھ علم نہیں اور اجنبی عورتوں سے ہاتھ ملانے سے پرہیز کریں۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ اس حدیث میں ’’مس‘‘ (ہاتھ لگانے) کا مفہوم مباشرت اور جماع نہیں ہے۔ لغوی طور پر اس لفظ کا ترجمہ "جلد کا جلد کے ساتھ لگنا اور چھو جانا" ہے۔ اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دوسری جگہ جہاں "مس" کے معنی مباشرت اور جماع کے ہیں تو ہر جگہ یہ دوسرے ہی معنی مراد لیے جائیں۔ یہ جاہلوں کا انداز ہے۔ لفظ کو اولا اس کے لغوی معنی ہی میں لینا چاہئے۔ اور جب تک کوئی نص یا اجماع نہ ہو اس کے حقیقی معنی سے مجازی معنی میں نہیں لینا چاہئے۔
اس کی ایک اور مثال ' إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ' ہے۔ اس میں اللہ عزوجل کی صلاۃ اپنے نبی پر رحمت نازل کرنا اور اسے عزت دینا ہے۔ تو کیا اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ جہاں بھی لفظ "صلاۃ" آیا ہے، وہاں دوسرے ہی معنی مراد لیے جائیں؟ ہم اس طرح نہیں کہتے۔ ائمہ نے اس کی اسی طرح وضاحت کی ہے۔ تو آپ ان "دین کے دکانداروں" سے مٹھاط رہیں۔ ان لوگوں نے اس مفہوم کی ایک اور روایت بھی بنا رکھی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیعت کے موقعہ پر جناب عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور آپ نے ایک عورت سے مصافحہ کیا، اور پھر دوسری بار آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔‘‘ تو یہ ایسی باتیں ہیں جن کا کوئی وجود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب