سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1081) رسم و رواج کے تحت عورت کا بوسہ دینا

  • 18688
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 620

سوال

(1081) رسم و رواج کے تحت عورت کا بوسہ دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں چھ ماہ، سال بعد اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے جاتا ہوں، تو وہاں مجھے خاندان کی چھوٹی بڑی عورتیں ملنے کے لیے آتی ہیں تو کئی عورتیں مجھے بوسہ بھی دیتی ہیں، مگر حیا اور وقار والا، اور یہ ہمارے ہاں ایک رواج ہے، اور وہ لوگ اسے ناجائز نہیں سمجھتے۔ لیکن میں کسی حد تک بحمداللہ دینی آداب و ثقافت سے آگاہ ہوں، اس لیے پریشان ہوں کہ عورتوں کے بوسے کا کیسے مقابلہ کروں۔ اگر میں ان سے مصافحہ نہیں کروں گا تو وہ مجھ پر بہت زیادہ غصے ہوں گی اور کہیں گی کہ یہ ہمارا احترام نہیں کرتا، اسے ہم سے کوئی لگاؤ اور الفت نہیں ہے، یعنی وہ الفت جو افراد کو افراد سے ہوتی ہے، نہ وہ جو نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ہوتی ہے۔ تو اگر میں اس رواجی انداز میں کسی عورت کو بوسہ دوں تو کیا گناہ گار ہوں گا جبکہ میری نیت میں کوئی خرابی نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے علاوہ کسی اور سے مصافحہ کرے یا اسے بوسہ دے۔ بلکہ یہ حرام کاموں میں سے ہے اورفتنے اورفحش کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے کہ: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘ (سنن النسائی،کتاب البیعة،باب بیعة النساء،حدیث:4181،سنن ابن ماجہ،کتاب الجھاد،باب بیعة النساء،حدیث:2874ومسند احمد بن حنبل:353/6، حدیث:27051۔) اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:

’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی (اجنبی) عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، آپ ان عورتوں سے زبانی ہی بیعت کر لیتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الطلاق،باب اذااسلمت المشرکۃ۔۔۔۔۔،حدیث:4983،وصحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب کیفیۃ بیعۃ النساء،حدیث:1866وسنن ابن ماجہ،کتاب الجھاد،باب بیعۃ النساء،حدیث:2875۔)

عورتوں کا اپنے غیر محرموں سے مصافحہ کرنے سے بڑھ کر قبیح عمل یہ ہے کہ وہ انہیں بوسے دیں، خواہ وہ چچا زاد ہوں، یا ماموں زاد یا خاندان اور قبیلے کی عام عورتیں۔ یہ سب باجماع المسلمین حرام ہے اور فحش کاری کا ایک بہت بڑا دروازہ!

لہذا ایک مسلمان پر واجب ہے کہ اس عمل سے پرہیز کرے اور اپنی سب عورتوں کو جو اس عادت بد کی عادی اور رسیا ہیں، قبیلے کی ہوں یا دوسری، انہیں واضح کر دے کہ یہ کام حرام اور ناجائز ہے۔ خواہ لوگوں میں اس کا کتنا ہی رواج کیوں نہ ہو۔ کسی مسلمان مرد اور عورت کو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، خواہ رشتہ دار یا اہل شہر اس کے کتنے ہی عادی کیوں نہ ہوں۔ ضروری ہے کہ اس عمل کی برائی سے انہیں آگاہ کیا جائے اور معاشرے کو اس سے باز رکھا جائے اور مصافحہ اور بوسے کے بغیر زبانی سلام پر اکتفا کیا جائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 760

محدث فتویٰ

تبصرے