سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1074) عورتوں کا گاڑیاں چلانا اور ڈرائیونگ کرنا

  • 18681
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1378

سوال

(1074) عورتوں کا گاڑیاں چلانا اور ڈرائیونگ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے لیے ڈرائیونگ کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو لوگ عورتوں کے لیے ڈرائیونگ پسند کرتے ہیں، ان کے سامنے اس عمل کے منفی پہلو بھی مخفی نہیں ہیں۔ مثلا یہ عمل عورت کے ساتھ ناجائز اور حرام خلوت کی راہ کھولتا ہے، عورت بے حجاب ہوتی ہے، بے محابہ مردوں کے ساتھ خلوت کرتی ہے، علاوہ ازیں اور بھی کئی ممنوع اور حرام اعمال کی مرتکب ہوتی ہے۔

اور شریعت مطہرہ نے ایسے تمام ذرائع و وسائل منع فرما دیے ہیں جو خود حرام یا حرام تک پہنچاتے ہوں، اللہ عزوجل نے اپنے نبی کی ازواج کے ساتھ ساتھ عام اہل ایمان کی عورتوں کو بھی گھروں میں ٹکے رہنے، پردہ کی پابندی اور غیر محرموں کے سامنے اظہار حسن و جمال سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ ان سے وہ آزاد روی آتی ہے جو ایک معاشرے کے لیے مہلک ہوتی ہے:

﴿وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ وَأَقِمنَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتينَ الزَّكو‌ٰةَ وَأَطِعنَ اللَّهَ وَرَسولَهُ ...﴿٣٣﴾... سورةالاحزاب

"اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور سابقہ جاہلیت کے سے انداز میں اظہار زینت نہ کرو، نماز کی پابندی کرو اور زکاۃ دیتی رہو اور اللہ کے رسول کی اطاعت اپناؤ۔"

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ ...﴿٥٩﴾... سورةالاحزاب

"اے نبی! اپنی بیویوں سے، بیٹیوں سے اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لپیٹ لیا کریں، یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور کوئی ایذا نہیں دی جائیں گی۔"

مزید فرمایا:

﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ذ‌ٰلِكَ أَزكىٰ لَهُم إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما يَصنَعونَ ﴿٣٠ وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَو‌ٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ أُولِى الإِربَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَروا عَلىٰ عَور‌ٰتِ النِّساءِ وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورةالنور

’’مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے، اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مارے رہیں، اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے لڑکوں کے، یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں پر مطلع نہیں، اور اسی طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے۔ اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پا جاؤ۔‘‘

اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:

ما خلا رجل بأمرأة إلا كان الشيطان ثالثهما

’’جب بھی کہیں کوئی مرد کسی (اجنبی) عورت کے ساتھ علیحدہ ہوتا ہے تو شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے۔‘‘

چنانچہ شریعت مطہرہ نے ایسے تمام اسباب منع کر دئیے ہیں جو (اسلامی، انسانی اور معاشرتی) رزائل تک پہنچاتے ہوں۔ مثلا پاک دامن لاعلم عورتوں کو بدکاری کا الزام دینا، اس کی سزا بڑی سخت رکھی گئی ہے تاکہ معاشرے میں بے حیائی اور رذالت کے اسباب کی اشاعت نہ ہو۔ جبکہ عورت کا کار چلانا (ڈرائیونگ کرنا) ایک ایسا عمل ہے جو ان نتائج تک پہنچاتا ہے، اس میں کسی طرح کا کوئی خفا نہیں ہے۔ لیکن شرعی احکام سے جہالت اور ان سے غفلت کے باعث ان کی پرواہ نہیں کی جاتی ہے۔ اور کچھ بیمار دل، اباحیت کے دلدادہ اور غیروں کی عورتوں کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے رسیا لوگ بڑی بے پروائی کے ساتھ ان برائیوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، اور انہیں اپنے بدانجام کا کوئی احساس نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَو‌ٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطـٰنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٣﴾... سورةالاعراف

’’کہہ دیجیے کہ میرے رب نے ان تمام فحش باتوں کو حرام کر دیا ہے جو ظاہر ہیں یا پوشیدہ، اور ہر گناہ کی بات اور ناحق ظلم کو، اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور اس بات کو بھی کہ تم اللہ کے ذمے کوئی ایسی بات لگا دو جس کی تم کوئی سند نہ رکھتے ہو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿١٦٨﴾... سورةالبقرة

’’اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بلاشبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔‘‘

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، کہتے ہیں کہ:

"لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر اور برائی کے متعلق پوچھا کرتا تھا، کہ کہیں مجھے نہ آ لے۔ ایک بار میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم جہالت اور برائی میں تھے، تو اللہ عزوجل ہمارے لیے یہ خیر (دین اسلام) لے آیا۔ تو کیا اس کے بعد کوئی شر بھی ہے؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کیا کیا اس شر کے بعد خیر بھی ہو گی؟ فرمایا: ہاں، مگر اس میں کھوٹ اور کینہ ہو گا۔ میں نے عرض کیا: اس میں کیا کھوٹ ہو گی؟ فرمایا: لوگ ہوں گے جو میری راہ کے علاوہ دوسری راہ پر چلتے ہوں گے، ان میں کچھ اچھے ہوں گے تو کچھ برے بھی ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے بعد پھر بھی کوئی شر ہو گا؟ فرمایا: ہاں، داعی ہوں گے، جہنم کے دروازوں کے! جس نے ان کی بات مان لی، وہ اسے اس میں پھینک ماریں گے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کی وضاحت فرما دیں!؟ فرمایا: وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے، ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے! میں نے عرض کیا: آپ مجھے کیا ارشاد فرماتے ہیں، اگر مجھے یہ حالات درپیش آ جائیں؟ فرمایا: (تلزم جماعة المسلمين و امامهم) "مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔" میں نے عرض کیا: اگر ان کا کوئی امام نہ ہو اور نہ جماعت؟ فرمایا:

فاعتزل تلك الفرق كلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت على ذلك

’’تو تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ رہنا، خواہ تجھے کسی درخت کی جڑ ہی چبانی پڑے، تا آنکہ تجھے موت آ جائے اور تو اسی حال پر ہو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ،حدیث:3411وصحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب ملازمۃ جماعت المسلمین عند ظہور الفتن،حدیثک1847السنن الکبری للبیھقی:190/8،حدیث:16572۔)

اور میں تمام مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اپنے قول و عمل میں اللہ کا تقویٰ اختیار کریں، ان فتنوں اور ان کی طرف دعوت دینے والوں سے انتہائی محتاط رہیں، اور ایسے تمام امور سے دور رہیں جو اللہ کی ناراضی کا سبب بن سکتے ہوں، اور ڈریں اور متنبہ رہیں، اس بات سے کہ کہیں ان لوگوں میں سے ہو جائیں جن کی نبی علیہ السلام نے اس حدیث میں خبر دی ہے۔

اللہ ہم سب کو فتنوں اور فتنہ پرور لوگوں سے محفوظ رکھے، امت کے دین کی حفاظت فرمائے، برائی کی دعوت دینے والوں کے شر سے بچائے اور ہمارے قلمکار اور صحافی حضرات کو ایسے اعمال کی توفیق دے جن میں اللہ کی رضا، مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔ بلاشبہ وہی کارساز اور ہر چیز کی کامل قدرت والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 753

محدث فتویٰ

تبصرے