سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1024) کیا عورت بھی صلہ رحمی کے احکام کی پابند ہے؟

  • 18631
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 827

سوال

(1024) کیا عورت بھی صلہ رحمی کے احکام کی پابند ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت بھی صلہ رحمی کے احکام کی پابند ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں، عورتیں مردوں ہی کی طرح ہیں (کس طرح مرد صلہ رحمی کے مکلف اور پابند ہیں، عورتیں بھی ہیں)ِ اور خیال رہنا چاہئے کہ یہ شریعت جنوں، انسانوں، مردوں، عورتوں، غلاموں اور آزادسب کے لیے ہے، ان میں سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہےسوائے اس بات کے جو کسی دلیل سے ثابت ہو۔ اور کہیں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ عورت شادی ہو جانے کے بعد صلہ رحمی نہیں کر سکتی۔ بلکہ صحیحین میں حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔" (2) اور آپ کو اللہ عزوجل کا یہ فرمان بھی پیش نظر رکھنا چاہئے:

﴿فَهَل عَسَيتُم إِن تَوَلَّيتُم أَن تُفسِدوا فِى الأَرضِ وَتُقَطِّعوا أَرحامَكُم ﴿٢٢ أُولـٰئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُم وَأَعمىٰ أَبصـٰرَهُم ﴿٢٣﴾... سورة محمد

’’پھر تم لوگوں سے کیا بعید ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ تو زمین پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔‘‘

الغرض عورت بھی صلہ رحمی کی پابند ہے، اور اس کے شوہر پر واجب ہے کہ اپنی اہلیہ کو یہ فریضہ سر انجام دینے کا موقع دے۔ اور ویسے بھی شوہرکو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لیے ناصح اور خیرخواہ بنے، اسے اچھی باتوں کی تلقین کرے اور برائی سے روکے۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی نافرمانی یا دیگر تعلق داروں سے قطع تعلقی وغیرہ کا کہتا ہے تو ایسا شوہر کوئی دیندار اور صالح نہیں ہے۔ مگر بیوی کے لیے لازم ہے کہ اس معاملہ میں شک و شبہ والی کیفیت سے بالا رہے۔ اس کام میں کسی فتنہ اور گناہ کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ مثلا اگر کوئی عورت اپنے بھائی سے صلہ رحمی کا معاملہ کرتی ہے مگر بھائی ہے کہ ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھا رہتا ہے اور اللہ کی ناراضی کے کام کرتا ہے تو ایسا آدمی اگر محرمات پر مصر ہو تو اس صورت میں اس سے صلہ رحمی جائز نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ اولا اللہ سے دعا کریں کہ اللہ اسے ہدایت دے، پھر مالی تعاون کی ضرورت ہو تو مالی تعاون کریں وغیرہ وغیرہ۔

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبی علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا، آپ نے اپنی آواز کو پست نہیں کیا تھا:

ألا إن آل طالب ليسوا بأوليائى إنما وليى الله و صالح المومنين ولكن لهم على رحم

’’خبردار! آل ابی طالب میرے ولی اور دوست نہیں ہیں۔ میرا ولی اوردوست تو اللہ ہے، اور صالح مومنین، تاہم ان لوگوں کا میرے ساتھ ایک رشتہ ضرور ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الادب،باب قبل الرحم ببلالھا،حدیث:5644،وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب موالاۃالمومنین ومقاطعۃغیرھم۔۔۔۔۔،حدیث:215ومسند احمد بن حنبل:203/4،حدیث:17837)فتویٰ میں بیان کیے گئے الفاظ میں"آل ابی طالب"کے الفاظ حدیث کی عبارت میں نہیں ملے۔اور حقیقت یہ ہےکہ حدیث میں ان الفاظ کی جگہ پر بیاض(خالی جگہ)ہے تو بعد میں بعض ائمہ نے اس جگہ"فلان"لکھ دیا،لیکن کسی خاص نام کا ذکر نہیں کیا گیا۔

اور آپ علیہ السلام نے حضرت عباس، سیدہ صفیہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’عمل کر لو، میں اللہ کے ہاں تمہاری کوئی کفایت نہیں کر سکوں گا، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جس قدر چاہتے ہو مال لے لو۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب الوصایا،باب ھل یدخل النساءوالولد فی الاقارب،حدیث:2602وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب قول اللہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین،حدیث:206وسنن النسائی،کتاب الوصایا،باب اذاوصی لعشیرتہ الاقربین،حدیث:3646۔)

اس حدیث کے ضمن میں کہ "وہ میرے ولی اور دوست نہیں ہیں، لیکن میرا ان کے ساتھ ایک رشتہ ہے" امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "ایسا رشتہ جس میں کوئی خرابی اور فساد ہو اسے کاٹ دینا چاہئے۔" اگرچہ اس میں کسی قدر شدت محسوس ہوتی ہے۔

سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کی والدہ آئی اس کا ارادہ تھا، اور وہ چاہتی تھی کہ بیٹی اس کے ساتھ کوئی تعاون کرے، تو اسماء رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلو تہی کی، پھر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور دریافت کیا کہ میری والدہ میرے ہاں آئی ہے اور وہ مجھ سے کچھ تعاون چاہتی ہیں، تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الھبةوفضلھا،باب الھدیةللمشرکین،حدیث:2477وصحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب فضل النفقة علی الاقربین،حدیث:1003۔)

الغرض اس میں ایک طرح کا ابتلاء اور آزمائش ہے۔ اللہ نے دلوں میں مال و اولاد کی محبت ڈال دی ہے:

﴿المالُ وَالبَنونَ زينَةُ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا ... ﴿٤٦﴾... سورةالكهف

’’مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿زُيِّنَ لِلنّاسِ حُبُّ الشَّهَو‌ٰتِ مِنَ النِّساءِ وَالبَنينَ وَالقَنـٰطيرِ المُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ ...﴿١٤﴾... سورة آل عمران

’’لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت یعنی عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے دلفریب بنا دی گئی ہے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 719

محدث فتویٰ

تبصرے