السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کا سوال ہے، کیا بھائی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بھاوج کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے جبکہ بھائی موجود نہ ہو، یا بھائی خود جانے سے معذرت کرے، اور ہسپتال بھی شہر کے اندر ہی ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ "شوہر کے بھائی کے ساتھ اکٹھی گاڑی میں سوار ہو کیونکہ یہ خلوت اور علیحدگی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کہا ہے اور فرمایا:
أياكم والدخول على النساء
’’اپنے آپ کو (اجنبی) عورتوں پر داخل ہونے سے بچاؤ۔‘‘
صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! دیور کے متعلق کیا فرمان ہے؟ فرمایا:
الْحَمْوُ الْمَوْتُ
’’دیور تو موت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب یخلون رجل بامراۃالاذومحرم والدخول علی المغیبۃ،حدیث:4934،وصحیح مسلم،کتاب السلام،باب تحریم الخلوۃ بالاجنبیۃوالدخول علیھا،حدیث:2172وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب کراھیۃالدخول علی المقیبات،حدیث:1171ومسند احمد بن حنبل:149/4،حدیث:17385۔)
تو اے اللہ کے بندو! آپ لوگ ان کلمات سے کیا سمجھتے ہیں؟ تنبیہ یا رخصت اور اجازت بلاشبہ ان الفاظ میں تنبیہ ہی کا مفہوم ہے، اجازت قطعا نہیں ہے۔ لہذا آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کی بیوی کے ساتھ علیحدہ ہو، گھر ہو یا گاڑی۔
اور سب سے بری صورت یہ ہے کہ گھر میں اس کا مہمان آ جاتا ہے اور صاحب خانہ اپنے کام پر ہوتا ہے اور بیوی مہمان کے لیے دروازہ کھول دیتی ہے اور وہ گھر میں داخل ہو جاتا ہے اور وہیں صاحب خانہ کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ الغرض عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ (اجنبی غیر محرم) مردوں کے ساتھ خلوت میں ہو، خواہ وہ شوہر کے عزیز رشتہ دار ہوں یا اس کے اپنے یا ہمسائے ہی کیوں نہ ہوں۔ بالخصوص جب اس کے پاس اس کا اپنا کوئی محرم نہ ہو، خواہ یہ شہر کے اندر ہو یا سفر میں۔ جبکہ (غیر محرم کے ساتھ) سفر حرام ہے، خواہ خلوت نہ بھی ہو۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہے، کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خطبہ کے دوران میں سنا، فرما رہے تھے:
لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر امرأة إلا مع ذى محرم
’’کوئی شخص ہرگز کسی عورت کے ساتھ خلوت اور علیحدگی میں نہ ہو، سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو، اور نہ کوئی عورت (اکیلی) سفر کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب سفر المراۃمع محرم الی حج وغیرہ،حدیث:1341۔فتویٰ میں مذکور الفاظ صحیح مسلم کی روایت کے عین مطابق ہیں۔تاہم یہ روایت بخاری اور دیگر کتب میں بھی ہے۔صحیح بخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب من اکتتب فی جیش فخرجت امراتہ حاجۃ وکان لہ عزوجل یوذن لہ،حدیث:2844ومسند احمد بن حنبل:222/1،حدیث:1934۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب