سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1003) بطور زینت بچیوں کے کان، ناک چھدوانے کا کیا حکم ہے؟

  • 18610
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 740

سوال

(1003) بطور زینت بچیوں کے کان، ناک چھدوانے کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بطور زینت بچیوں کے کان، ناک چھدوانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ کان چھدوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ عمل ایک مباح زینت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اور صحیح طور پر ثابت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی خواتین اپنے کانوں میں بالیاں ڈالا کرتی تھیں، اور اس میں ہونے والی تکلیف بہت ہی معمول ہوتی ہے، بالخصوص جب بچپنے میں ہو، اور یہ زخم بہت جلد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ البتہ ناک کا چھدوانا، یہ ایک قسم کا مثلہ اور چہرہ بگاڑنے والی بات ہے۔

شیخ عبداللہ الفوزان فرماتے ہیں کہ بچی کے کان چھدوانا جائز ہے کیونکہ اس میں عورت کی ایک فطری خواہش زینت کی تکمیل ہے، اور اس سلسلے میں آنے والی تکلیف کو رکاوٹ نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ یہ بہت خفیف ہے اور زخم بہت جلد مندمل ہو جاتا ہے اور یہ عمل بالعموم بچپنے میں کیا جاتا ہے۔ اور کان چھدوانا ایک ایسا عمل ہے جو عورتوں میں قدیم سے مروج رہا ہے۔ کتاب و سنت میں اس بارے میں کوئی منع وارد نہیں ہے، بلکہ ایسے بیانات آئے ہیں جو اس کا جواز ثابت کرتے ہیں اور یہ کہ لوگ اس پر کاربند رہے ہیں۔

جناب عبدالرحمٰن بن عابس کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ عید کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر رہے ہیں، فرمایا: ہاں، اگر چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھے آپ کے ہاں قربت نہ ہوتی تو شاید میں یہ کچھ نہ دیکھ پاتا۔ آپ علیہ السلام اس جھنڈے کے پاس آئے جو کثیر بن صلب رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس تھا، تو آپ نے (عید کی) نماز پڑھائی اور پھر خطبہ دیا۔ اس میں انہوں نے کسی اذان یا اقامت کا کر نہیں کیا۔ پھر آپ نے صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی تو عورتوں نے اپنے ہاتھ جلدی جلدی اپنے کانوں اور اپنی گردنوں کی طرف بڑھانا شروع کیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا تو وہ ان کی طرف آئے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ گئے۔ (صحیح بخاری،کتاب صفۃ الصلوۃ،باب وضوءالصبیان ومتی یجب علیھم الغسل والطہور۔۔۔۔۔،حدیث:825وایضا،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب ماذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وحض علی اتفاق اھل العلم،حدیث:6894وسنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب ترک الاذان فی العید،حدیث:1145۔) صحیح بخاری میں بھی الفاظ اسی کے قریب ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 705

محدث فتویٰ

تبصرے