سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(405) مزدوری کی غرض سے جانا اور عمرہ کرنا

  • 1861
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2209

سوال

(405) مزدوری کی غرض سے جانا اور عمرہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی پاکستان سے مکہ مکرمہ مزدوری کے ویزہ پر آیا اور اس نے یہ نیت کی کہ میں آج نہیں (پیر کے دن) جمعہ کو عمرہ کروں گا حالانکہ وہ بروز سوموار مکہ داخل ہوا نیز اس نے احرام بھی نہیں باندھا۔

(1) کیا اس طرح عمرہ کی تاخیر جائز ہے (2) کیا اس صورت میں میقات سے بغیر احرام باندھے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے جبکہ اس نے عمرہ کی نیت بھی کر لی ہے کہ میں جمعہ کو عمرہ ادا کروں گا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک شخص بغرض مزدوری مکہ معظمہ پہنچا اور مکہ معظمہ پہنچنے تک اس نے حج یا عمرہ کا ارادہ نہیں کیا تو اس کے لیے میقات سے بلا احرام گزرنا درست ہے اس کی دلیل ہے۔(1) متفق علیہ حدیث

«هُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ اَتَی عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيرِ اَهْلِهِنَّ مِمَّنْ کَانَ يُرِيْدُ الْحَجَّ اَوِ الْعُمْرَةَ»

’’یہ مقامات وہاں کے رہنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے بھی جو وہاں سے گزر کر آئیں وہاں کے مقیمی نہ ہوں جو حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں‘‘۔(بخاری۔کتاب الحج باب مہل من کان دون المواقیت)۔(1)فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کا مکہ معظمہ میں بلا احرام داخل ہونا۔(3)ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کا حمار وحشی کو شکار کرنے والا واقعہ اس میں تصریح ہے کہ ابوقتادہ ٰرضی اللہ عنہ محرم نہیں تھے جبکہ ان کے ساتھی محرم تھے۔(بخاری۔کتاب جزاء الصید۔باب اذا صاد الحلال فاہدی للمحر الصید اکلہ)۔استدلال رسول اللہﷺ کی تقریر سے ہے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے عمل سے نہیں۔

بغرض مزدوری جانے والا مذکورہ بالا صورت میں مکہ معظمہ پہنچ گیا ہے تو پہنچ کے روز سے عمرہ کو وہ مؤخر کر سکتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ مکہ فتح کرنے کے بعد بلا عمرہ کیے حنین کی طرف چلے گئے حنین کو بھی فتح کیا پھر حنین کی غنائم کو جعرانہ مقام پر آپ نے تقسیم فرمایا پھر اس کے بعد آپ نے عمرہ ادا کیا۔ حالانکہ مکہ فتح کرتے ہی فی الفور آپ عمرہ ادا کر سکتے تھے اس کے باوجود آپ نے عمرہ کو مؤخر فرما دیا۔

بغرض مزدوری مکہ جانے والے نے اگر میقات تک پہنچنے سے پہلے حج یا عمرہ کا ارادہ کر لیا ہے تو اس کے لیے میقات سے بلااحرام گزرنا جائز نہیں دلیل مذکور بالا متفق علیہ حدیث شریف هُنَّ لَهُنَّ الخ اور اگر ایسے شخص نے میقات سے گزرنے کے بعد اور مکہ معظمہ پہنچنے سے پہلے کسی مقام پر حج یا عمرہ کا ارادہ کیا ہو تو اس کے لیے اسی مقام ارادہ سے احرام باندھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہﷺ اسی متفق علیہ حدیث میں فرماتے ہیں :

«وَمَنْ کَانَ دُوْنَ ذٰلِکَ فَمِنْ حَيْثُ اَنْشَأَ حَتّٰی اَهْلُ مَکَّةَ مِنْ مَکَّةَ»(بخارى-كتاب الحج-باب مهل اهل مكة للحج والعمرة)

’’اور جو ان مقامات کے اندر ہے پس وہ احرام باندھے جہاں سے شروع کرے ۔حتی کہ مکہ والے مکہ ہی سے‘‘

بغرض مزدوری مکہ معظمہ جانے والا حج یا عمرہ کا ارادہ نہیں رکھتا اور بلا احرام باندھے مکہ معظمہ پہنچ جاتا ہے اور مکہ پہنچتے ہی حج کا ارادہ کر لیتا ہے تو مسئلہ صاف ہے اگر پہنچے اور  ارادہ کی تاریخ آٹھ ذوالحج سے پہلے ہے تو طواف قدوم کے بعد آٹھ تک تاخیر ہو گی اور اگر اس نے مکہ معظمہ مذکورہ بالا صورت میں پہنچتے ہی عمرہ کا ارادہ کر لیا ہے تو بھی اس کے لیے دو چار دن یا زیادہ دن کی تاخیر عمرہ درست ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے «اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ» فرمایا ہے «اِنَّمَا النِّیَّاتُ بِالْاَعْمَالِ» نہیں فرمایا پھر اہل مکہ یا غیر اہل مکہ پر حج یا عمرہ فرض ہو جانے کے بعد ان کی تاخیر روا ہے جبکہ مومن حج یا عمرہ فرض ہوتے ہی اس کی نیت کر لیتے ہیں کہ ہم حج یا عمرہ ضرور ادا کریں گے۔

 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

حج و عمرہ کے مسائل ج1ص 291

محدث فتویٰ

تبصرے