سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(972) عورت کے لیے اپنی چوٹی پر جوڑا بنانا

  • 18579
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1466

سوال

(972) عورت کے لیے اپنی چوٹی پر جوڑا بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے لیے اپنی چوٹی پر جوڑا بنانا کیسا ہے جسے کہ لوگ کعکعہ سے تعبیر کرتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عین سر کے اوپر بالوں کا اس طرح سے جمع کر لینا اہل علم کے نزدیک اس نہی یا تحذیر میں شامل ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس معروف حدیث (صنفان من اهل النار لم ارهما بعد...) میں ذکر کیا ہے، اور اس میں ہے کہ "عورتیں ہوں گی کپڑے پہنے ہوئے مگر ننگی، مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی، ان کے سر بختی اونٹوں کے جھکے کوہانوں کی مانند ہوں گے۔" (صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساءالکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:2/355،حدیث:8650وصحیح ابن حبان:16/500،حدیث:6461۔) یہ حکم تو عین سر کے اوپر جوڑا بنانے کا ہے۔ البتہ گردن پر ان کا جمع کر لینا، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر عورت نے بازار وغیرہ جانا ہے تو اگر اسی حال میں جائے تو یہ وہ تبرج ہو گا (یعنی اظہار زینت ہو گا) جو ممنوع ہے۔ کیونکہ باوجود عبایہ (یا برقع) پہننے کے یہ پیچھے اسے بطور علامت نظر آئے گا۔ یہ تبرج ہے اور اسباب فتنہ میں ہے لہذا جائز نہیں۔ ([1]) (محمد بن صالح عثیمین)


[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ گدی کے پاس گردن پر جوڑا بنا لینا عام ھالت میں تو جائز ہے مگر نماز کی حالت میں جائز نہیں ہے،خواہ وہ مرد بنائے یاعورت،جیسے کہ فضیلۃالشیخ نے گھر سے باہر بازار وغیرہ میں اسے منع فرمایا ہے۔سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب الرجل یصلی عاقصاشعرہ،حدیث:646۔647(طبع دارالسلام)

(عن سعيد بن أبي سعيد المقبري يحدث عن أبيه أنه رأى أبا رافعمولى النبي صلى الله عليه وسلم مر بحسن بن علي عليهما السلام وهو يصلي قائما وقد غرز ضفره في قفاه فحلها أبو رافع فالتفت حسن إليه مغضبا فقال أبو رافع أقبل على صلاتك ولا تغضب فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك كفل الشيطان يعني مقعد الشيطان يعني مغرز ضفره)

"جناب ابو رافع رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے،سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے،اور انہوں نے اپنے بال اپنی گدی کے پاس بصورت جوڑااکٹھے کیے ہوئے تھے۔چنانچہ ابو رافع رضی اللہ عنہ ان کے بال کھولنے لگے،تو حسن رضی اللہ عنہ غصے سے ان کی طرف متوجہ ہوئے تو ابو رافع رضی اللہ عنہ نے کہا:اپنی نماز پڑھیے اور غصے مت ہوں،میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے،فرماتے تھے کہ یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔یعنی اس طرح سے جوڑا باندھ کر یا بنا کر نماز پڑھنا۔"

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 689

محدث فتویٰ

تبصرے