السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مردوں اور عورتوں کے لیے کنگھی کرتے ہوئے بال بنانے کی کیا کیفیت ہونی چاہئے؟ کیا احادیث میں اس بارے میں کوئی خاص کیفیت بیان ہوئی ہے یا کسی سے منع کیا گیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلے میں خواتین کے لیے صحیح بخاری میں امام صاحب نے ایک باب یوں ذکر کیا ہے " باب جعل شعر المراة ثلاثة قرون" عورت کا اپنے بالوں کی تین چوٹیاں بنانے کا بیان" پھر امام صاحب نے سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ذکر کی ہے، کہتی ہیں کہ "۔۔ پھر ہم نے دختر نبی کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر گوندھ دیں۔" جناب سفیان نے تفصیل بیان کی کہ ایک چوٹی پیشانی کے بالوں کی اور دو اطراف کے بالوں کی۔ (صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب ھل یجعل شعر المراۃثلاثۃ قرون،حدیث:1203فتویٰ میں باب کے جو الفاظ ذکر کیے گئے ہیں وہ بخاری میں موجود اصل الفاظ سے مختلف ہیں۔اصل الفاظ وہ ہیں جو یہاں حوالہ درج کرتے ہوئے بیان کیے گئے ہیں۔(عاصم))
اور بالوں کا اس طرح سے گوندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے تھا۔ سنن سعید ابن منصور میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا، اسے طاق عدد سے غسل دو اور اس کے بالوں کی چوٹیاں بنا دو۔" (یہ الفاظ مسند سعید بن منصور سے تو نہیں مل سکے البتہ اس مفہوم ومعنی کی روایات دیگر کتب میں موجود ہیں۔واللہ اعلم۔دیکھیے:صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب فی غسل المیت،حدیث:939،وسنن الترمذی،کتاب الجنائز،باب غسل المیت،حدیث:990،سنن النسائی،کتاب الجنائز،باب غسل المیت وترا،حدیث:1885۔)
جبکہ صحیح ابن حبان میں وضاحت ہے، ام عطیہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ فرمایا:
اغسلها ثلاثا أو خمسا أو سبعا واجعلن لها ثلاثة قرون
"اسے تین، پانچ یا سات بار غسل دو اور اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا دو۔" (صحیح ابن حبان:7/304،حدیث:3033۔)
مصنف عبدالراق میں اور زیادہ تفصیل ہے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ضفرنا شعرها ثلاثة قرون ، ناصيتها وقرنيها ثم ألقيناه خلفها
"ہم نے اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنائیں ایک پیشانی کے بالوں کی اور دو اطراف کے بالوں کی، اور پھر ہم نے انہیں اس کی کمر کی طرف ڈال دیا۔" (صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب یلقی شعر المراۃخلفھا،حدیث:1204وصحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب فی غسل المیت،حدیث:939السنن الکبری للبیھقی:4/5،حدیث:6558،مصنف عبدالرزاق:3/402،حدیث:6089یہ روایات الفاظ کی کمی بیشی اور ترتیب الفاظ میں تقدیم وتاخیر کے ساتھ مروی ہیں،اور یہ تمام روایات حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ہیں۔(عاصم))
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے بالوں میں کنگھی اور پھر اس کی مینڈھیاں یا چوٹی بنانا مستحب ہے۔"
اور جو آج کل بعض مسلمان عورتوں میں یہ چلن آیا ہے کہ ٹیڑھی مانگ نکالتی ہیں اور گدی کے پاس یا عین چوٹی کے اوپر بنا لیتی ہیں جیسے کہ فرنگی عورتوں کا معمول ہے، تو یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ امام احمد اور امام ابوداؤد رحمہما اللہ اپنی اپنی سندوں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی قوم کی مشابہت اپنائے وہ ان ہی میں سے ہو گا۔" (سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی لبس الشھرۃ،حدیث:4031ومسند احمد بن حنبل:2/50،حدیث:5115،5114۔)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ عراقی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: اس کی سند جید یعنی عمدہ ہے۔ اور امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں آیا ہے "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو قسم کے لوگ دوزخی ہوں گے، میں نے انہیں دیکھا نہیں ہے۔ ایک تو وہ ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دُمیں ہوں، ان سے وہ لوگوں کو مارتے ہوں گے، اور (دوسری قسم) عورتیں ہوں گی (کہنے کو تو) کپڑے پہنے ہوں گی مگر (درحقیقت) ننگی ہوں گی، مائل ہونے والی اور (اپنی طرف) مائل کرنے والی، ان کے سر ایسے ہوں گے جیسے کہ دبلی پتلی بختی اونٹنیوں کے کوہان، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گی نہ اس کی خوشبو ہی پائیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی ہو گی۔" (صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساءالکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:2/355،حدیث:8650وصحیح ابن حبان:16/500،حدیث:6461۔)
بعض علماء نے ' مائلات مميلات' کی تشریح میں لکھا ہے کہ ان کے کنگھی کرنے اور مانگ نکالنے کا انداز ٹیڑھا ہو گا، اور یہ فاحشہ عورتوں کا انداز ہے، اور اب یہ فرنگی عورتوں کا معمول ہے جو مسلمان عورتوں نے بھی اپنا لیا ہے۔
دوسرا مسئلہ:۔۔ عورتوں کا سر کے بال منڈوانا بالکل جائز نہیں ہے۔ سنن نسائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور مسند بزار میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اور تفسیر ابن جریر میں عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تحلق المرأة رأسها
"یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنا سر منڈوائے۔" (سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب النھی عن حلق المراۃراسھا،حدیث:5049وسنن الترمذی،کتاب الحج،باب کراھیۃ الحلق للنساء،حدیث:914۔)
اور پیغمبر علیہ السلام کی نہی اس کام کے حرام ہونے کا تقاضا کرتی ہے، بشرطیکہ اس کے برخلاف کچھ اور نہ ہو۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ "عورت کی زلفیں حسن و جمال میں ایسے ہی ہیں جیسے کہ مردوں کے حق میں داڑھی۔ البتہ زلفوں کو آخر سے کچھ ہلکا کر لینا جائز ہے۔"
صحیح مسلم میں ہے:
"ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر ہوا۔ میرے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی بھائی بھی تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے متعلق سوال کیا۔ سیدہ نے پانی منگوایا جو ایک صاع کے برابر تھا۔ انہوں نے اس سے غسل کیا، اور ہمارے اور ان کے درمیان پردہ تھا، اور اس موقع پر انہوں نے اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج نبی اپنے بال کچھ ہلکے کر لیتی تھیں کہ ورفہ ہو جاتے تھے (یعنی کانوں سے نیچے تک آ جاتے تھے)۔" (صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب القدر المستحب من الماءفی غسل الجنابۃ۔۔۔۔۔،حدیث:320۔)
امام نووی بیان کرتے ہیں کہ قاضی عیاض نے کہا کہ معروف ہے کہ عرب کی عورتیں لمبے بال رکھتی تھیں، اور شاید ازواج نبی نے آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ عمل اپنایا تھا کیونکہ وہ زیب و زینت چھوڑ چکی تھیں، اور انہیں بال لمبے کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی اور یہ بھی چاہتی تھیں کہ بالوں کے بارے میں انہیں کچھ زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ (شرح السیوطی علی مسلم:2/80،حدیث:320۔)
قاضی عیاض اور دیگر ائمہ نے یہی لکھا ہے کہ ان کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے، نہ کہ آپ کی زندگی کا۔ اور ان سیدات کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے عمل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس میں دلیل ہے کہ عورت اپنے سر کے بال ہلکے کروا سکتی ہے۔ مذکورہ بالا روایت (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی والی) میں قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سیدہ کا یہ عمل سر دھونا اور جسم کا اوپر کا حصہ دیکھا تھا جس کا کسی محرم کے لیے دیکھنا حلال ہے۔ ([1]) (محمد بن ابراہیم)
[1] یہ حضرات جو اس ملاقات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئے ہیں یہ دونوں ان کے محرم ہیں۔ابو سلمہ جناب عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کر فرزند اور سیدہ کے بھتیجے ہیں اور دوسرے ان کے اپنے رضاعی بھائی ہیں،اور ضروری نہیں کہ بقول قاضی عیاض رحمۃ اللہ،انہوں نے سیدہ کاغسل کرنا دیکھا ہو،بلکہ جب یہ حضرات آئے تو آپ غسل کے لیے تیار تھیں۔ان کی آمد پر کچھ توقف ہوا۔ادھر انہوں نے غسل نبی کے متعلق سوال کیا کہ تھوڑے سے پانی سے غسل کرلینا بہت عجیب ہے؟سیدہ نے کہا:عجیب نہیں بلکہ یہ ہوسکتا ہے اور ہوتا تھا۔چنانچہ انہوں نے بھی ایک صاع(چار مد،تین ساڑھے تین کلو)پانی منگوا کر پردے میں جاکر غسل کیا اور کہا دیکھو میں نے اسی پانی سے غسل کیا ہے اور سر بھی دھویا ہے۔(ازافادات شیخنا سلطان محمود رحمۃ اللہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب