السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسے رسائل و مجلات خریدنے کا کیا حکم ہے جو عورتوں کے کپڑوں کی نئی ورائٹی اور لباس کے ڈیزائنوں کے اشتہارات پر مشتمل ہوتے ہیں، جبکہ ان کی خریداری کا مقصد بھی صرف نئے نئے ڈیزائنوں سے آگاہ ہونا ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد انہیں سنبھال کے رکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ یہ عورتوں کی تصویروں سے بھرے ہوتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ ایسے رسائل خریدنا جن میں حرام تصویریں ہی ہوں ناجائز ہے، اور پھر تصویریں سنبھال کے رکھنا بھی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ
’’اس گھر میں جس میں تصویرہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب بدءالخلق،باب اذاقال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء،حدیث:3054،وصحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم تصویر صورۃالحیوان،حدیث:2106وسنن النسائی،کتاب الطہارۃ،باب فی الجنب اذالم یتوضا،حدیث:261۔)
آپ علیہ السلام نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ایک غالیچہ یا تکیہ دیکھا جس پر تصویر تھی، تو آپ دروازے پر رک گئے اور اندر داخل نہ ہوئے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کے چہرے پر ناگواری کے اثرات محسوس کیے۔
ان لباسوں سے متعلق رسالوں کی تحقیق ہونی چاہئے، اور ہر لباس حلال نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کوئی اس میں ایسا ہو جو "طہور عورہ" کا کوئی پہلو لیے ہوئے ہو، اس انداز میں کہ وہ تنگ ہو یا کچھ اور۔ اور ممکن ہے کہ یہ لباس کفار کے مخصوص لباسوں میں سے ہو تو کافروں کی مشابہت بھی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
’’جو کسی قوم کی مشابہت اپنائے، وہ ان ہی میں سے ہے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی لبس الشھرۃ،حدیث:4031،ومسند احمد بن حنبل:50/2،حدیث:5115،5114۔)
سو میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بالعموم اور بہنوں کو بالخصوص نصیحت کرنا چاہوں گا کہ ان (مغربی) لباسوں سے اپنے آپ کو بچائیں، کیونکہ ان میں کئی وہ ہیں جن میں کافروں سے مشابہت ہوتی ہے اور کئی وہ ہیں جن میں کماحقہ پردہ نہیں ہوتا، جسم ان میں ننگا رہتا ہے۔پھر ہماری عورتوں کا ان نت نئے ڈیزائنوں کے طرف مائل اور راغب ہونے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری عادات اور خصائل بھی بدل جائیں گے جن کا منبع دین حق ہے، اور ہم وہ عادتیں اپنا لیں گے جو غیر مسلموں سے آئی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب