السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سکولوں میں طالبات کی اس وردی کا کیا حکم ہے جس میں بعض اوقات آگے، پیچھے اور اطراف میں ایسے چاک ہوتے ہیں جن سے (جسم ظاہر ہوتا ہے) اور نیچے سے پنڈلیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ سب عورتوں کے ماحول میں ہوتا ہے، اور کیا اس طرح پنڈلی کا ظاہر ہونا ’’عورہ‘‘ (قابل ستر) نہیں ہوتا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، عورت کے لیے واجب ہے کہ ایسا لباس پہنے جو اسے پوری طرح ڈھانپ لے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نبی علیہ السلام کے دور میں عورتیں ایسی قمیص پہنتی تھیں جو ٹخنوں اور قدموں تک ہوتی تھیں، اور بازو ہاتھوں کو بھی چھپا لیتے تھے۔ اور سائل نے جو بات پوچھی ہے کہ شلوار پاجامہ کا چاک جس سے پنڈلی ظاہر ہوتی ہے، عین ممکن ہے کہ معاملہ اس سے آگے بڑھ جائے اور اس سے اوپر کا حصہ ننگا کیا جانے لگے۔ عورت پر واجب ہے کہ ایسا لباس پہنے جو اسے باحیا اور باوقار بنائے اور اسے چھپانے والا ہو، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں شامل نہ ہو:
صنفان من اهل النار لم ارهما بعد:قوم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مائلات مميلات على رؤوسهن كأسنمة البخت لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من ميسرة كذا و كذا۔۔۔
’’دو قسم جت لوگ ہیں جو دوزخی ہوں گے، میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے۔ ایک وہ لوگ کہ ان کے ہاتھ میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دمیں ہوتی ہیں، وہ ان کے ساتھ لوگوں کو مارتے پھرتے ہوں گے۔ اور دوسری عورتیں ہوں گی، لباس پہنے ہوئے مگر ننگی، (دوسروں کو اپنی طرف) مائل کرنے والی، ان کے سر ایسے ہوں گے جیسے کہ بختی اونتوں کے کوہان، یہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گی اور نہ اس کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس ہوتی ہو گی ۔۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساءالکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:355/2،حدیث:8650۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب