سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(941) عورتوں کا ایسا لباس پہننا جس سے ان کی زینت نمایا ہو؟

  • 18548
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1640

سوال

(941) عورتوں کا ایسا لباس پہننا جس سے ان کی زینت نمایا ہو؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل شادیوں وغیرہ میں دیکھا جاتا ہے کہ کچھ عورتیں عجیب سے لباس پہنتی ہیں۔ کچھ کہا جائے تو کہتی ہیں کہ ہم یہ صرف عورتوں ہی کے درمیان پہنتی ہیں۔ یہ کپڑے ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے اعضائے زینت نمایاں ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وپر سے اس قدر کھلے ہوتے ہیں کہ سینے کا کچھ حصہ تک ننگا ہوتا ہے، یا کمر ننگی ہوتی ہے، یا نیچے سے اس طرح سے کاٹا گیا ہوتا ہے کہ گھٹنے کے قریب تک کا جسم ظاہر ہوتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صنفان من اهل النار لم ارهما بعد:قوم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مائلات مميلات على رؤوسهن كأسنمة البخت لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من ميسرة كذا و كذا۔۔۔

’’دو قسم کے لوگ ہیں جو دوزخی ہوں گے، میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے۔ ایک وہ لوگ کہ ان کے ہاتھ میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دمیں ہوتی ہیں، وہ ان کے ساتھ لوگوں کو مارتے پھرتے ہوں گے۔ اور دوسری عورتیں ہوں گی، لبس پہنے ہوئے مگر ننگی، (دوسروں کو اپنی طرف) مائل کرنے والی، ان کے سر ایسے ہوں گے جیسے کہ بختی اونٹوں کے کوہان، یہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گی اور نہ اس کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ اس کی خوشبوت اتنی اتنی مسافت سے محسوس ہوتی ہو گی ۔۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساءالکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:255/2،حدیث:8650۔صحیح ابن حبان:500/16،حدیث:7461۔)

آپ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ "وہ کپڑے پہنے ہوں گی" اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر کپڑے تو ہوں گے مگر ان کے لازمی پردے کے لیے کافی نہ ہوں گے یا تو مختصر اور تنگ ہوں گے یا وہ بہت ہلکے اور باریک اور شفاف ہوں گے۔

اس مفہوم کی ایک روایت مسند احمد میں بھی آئی ہے، اگرچہ اس میں کچھ کمزوری بھی ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قطبی (مصری) کپڑا عنایت فرمایا۔ پھر آپ نے مجھے سے دریافت فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تو نے وہ قطبی کپڑا پہنا نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ وہ میں نے اپنی بیوی کو پہنا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’اسے حکم دینا کہ اس کے نیچے (بنیاد کی طرح کا) کوئی زیر جامہ بھی لگا لے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اس کی ہڈیوں کا حجم نمایاں کرے گا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:205/5،حدیث:21834۔)

آج کل کے کپڑے جو اوپر سے اس قدر کھلے ہوتے ہیں کہ کچھ سینہ، کمر ننگی ہوتی،  اللہ تعالیٰ کے حکم کے صریحا خلاف ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:

﴿وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورةالنور

اس کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اور اس کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنی اوڑھنی کی بکل مار لے، اس طرح کہ اس کا گریبان اور سینہ چھپ جائے،‘‘

پھر اس کے بعد انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک اثر بیان کیا ہے کہ ان کی بھتیجی حمنہ بنت عبدالرحمٰن ان کے پاس آئیں، ان کی اوڑھنی میں سے اس کی گردن وغیرہ جھلکتی تھی تو وہ انہوں نے پھاڑ ڈالی اور فرمایا:

’’کپڑا ایسا لو جو موٹا ہو اور جسم چھپائے۔‘‘ ([1])

اور وہ کپڑے کہ نیچے سے ان کی کٹائی اس طرح ہوتی ہے کہ گھٹنے یا اس سے نیچے تک وہ چرے ہوئے ہوتے ہیں، اگر ان کے نیچے کوئی چھپانے والا اور بھی زیر جامہ ہو تو بہتر (ورنہ ناجائز ہے)۔ اور اگر یہ مردوں کے لباس سے مشابہ ہو تو مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہے۔ ([2])

اور عورت کے ولی، سرپرست اور ذمہ دار پر لازم ہے کہ وہ اسے ہر حرام لباس سے منع کرے اور پابند کرے کہ وہ میک اپ کر کے یا خوشبو لگا کر باہر نہ جائے۔ ولی اس کا ذمہ دار اور مسئول ہے، قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں پوچھ ہو گی، اور قیامت کا دن وہ ہے کہ اس دن کوئی جان کسی سے کوئی کفایت نہیں کر سکے گی، نہ اس سے کوئی سفارش قبول ہو گی، اور نہ کوئی عوض قبول کیا جائے گا، اور نہ کوئی مدد ہو گی۔ اللہ عزوجل ہر ایک کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اس کے پسندیدہ ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔


[1] ان کا نام حمنہ نہیں بلکہ حفصہ بنت عبد الرحمٰن ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہیں۔ان کی باریک اوڑھنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھاڑ دی اور موٹی اوڑھنی دے دی۔(عاصم)السنن الکبری للبیھقی:2/235،حدیث:3082۔

[2] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ عورتوں کا یہ عذر کرنا کہ ہم یہ صرف عورتوں کے سامنے ہی پہنتی ہیں،تب بھی یہ جائز نہیں ہے۔شروع فتویٰ میں بیان کی گئی حدیث کے عموم کا تقاضا یہی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 671

محدث فتویٰ

تبصرے