السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کا ایسا لباس جو اس کے اعضاء بازو، چھاتیاں اور سرین وغیرہ اور جسم کے دیگر شکن ظاہر کرے اور تنگ اور مختصر لباس جو بھی نہ ڈھانپے، ان سب کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از طرف ۔۔ محمد بن ابراہیم ۔۔ اللہ اس پر رحم فرمائے۔ اپنے تمام مسلمان بھائیوں کے نام جو اسے ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ مجھے اور ان سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اسے راضی کرنے والے ہوں اور ایسے اسباب سے محفوظ رکھے جو اس کی نافرمانی اور ناراضی کا سبب ہو سکتے ہوں۔
اما بعد! اس دور کے حالات بہت حد تک بدل گئے ہیں۔ عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی حیا کی چادر اتار پھینکی ہے۔ دینی حدود کے معاملے میں یہ بڑی ڈھیٹ اور بے آبرو ہو رہی ہیں، بلکہ مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ اور خوف آتا ہے کہ یہ قوم اپنی عریانی، بے پردگی اور آزاد روی کی بنا پر اللہ کی طرف سے کسی بدترین سزا اور سابقہ قوموں کے سے انجام سے دوچار نہ ہو جائے۔ انہوں نے ایسے لباس پہننے شروع کر دیے ہیں جو ان کے جسم کے انگ انگ اور نشیب و فراز کو ظاہر کرتے ہیں، بازو، چھاتیاں، کمر اور سرین سب نمایاں ہوتی ہیں، اور جو کپڑے انہوں نے پہنے ہوئے ہوتے ہیں اس قدر باریک اور مہین ہوتے ہیں کہ ان سے ان کے جسم کی رنگت تک جھلکتی ہے۔ بازو بہت مختصر اور تنگ بلکہ نیچے سے پنڈلیاں تک ننگی ہوتی ہیں۔
اور یقینا یہ چیزیں انہیں فرنگیوں کی تقلید اور پیروی سے ملی ہیں۔ یہ کیفیت انتہائی بے حیائی اور لوگ اس صورت حال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل اللہ کی حدود میں مداہنت، اللہ کی نافرمانی اور احمقوں کی اطاعت ہے۔ یہ خاموشی کیس بڑی مصیبت کا پیش خیمہ اور کسی بڑے شر و فساد کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ تو ضروری ہے کہ اس صورت حال کی برائی اور حرمت واضح کی جائے، انہیں ان کے غلط اقدامات سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔لہذا اختصار کے ساتھ ذیل میں اس مسئلہ کے اہم نکات بیان کیے جاتے ہیں:
(1)۔۔۔ یہ (بے پردگی اور عریانی) فرنگیوں اور عجمیوں کی تقلید ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور احادیث میں عجمیوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ ان صریح احکام سے واضح ہوتا ہے کہ کفار کی پیروی اور تقلید سے روکنا صاحب شریعت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی عظیم تالیف " اقتضاء صراط المستقيم فى مخالفة اصحاب الجحيم " میں وہ تمام نقصانات شمار کرائے ہیں جو ان عجمیوں اور کفار کی تقلید سے سامنے آتے ہیں۔ ([1]) شریعت نے کفار کے علاوہ عجمیوں، بدویوں اور دیہاتیوں کی مشابہت سے بھی منع کیا ہے۔ اور اس منع میں آج کے یہ عجمی بھی شامل ہیں جیسے کہ شروع اسلام کے اعاجم اور کفار شامل تھے۔ بلکہ اس میں مسلمان عجمی بھی شامل ہیں،جن سے سابقین اولین محفوظ تھے۔ اور ان لوگوں کے رسوم و رواج اور بہت سے معمولات اس "جاہلیت اولیٰ" کے زمرے میں آتے ہیں جن میں لوگ قبل از اسلام مبتلا تھے۔ اور اب تو عرب کی بھی ایک بڑی تعداد اپنی ان سابقہ عادات و رسوم کی طرف لوٹ رہی ہے!
(2) ۔۔ عورت سرتاپا قابل ستر ہے اور اس بات کی پابند ہے کہ اپنے آپ کو چھپائے اور پردہ کرے اور کسی صورت بھی اپنے حسن و جمال، زیب و زینت، بناؤ سنگھار اور فتنہ بھرے جسم کی نمائش نہ کرتی پھرے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ...﴿٥٩﴾... سورةالاحزاب
’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھے رکھا کریں۔‘‘
اور سورۃ الاحزاب میں فرمایا ہے:
﴿وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ...﴿٣٣﴾... سورةالاحزاب
’’اور سابقہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت کا اظہار نہ کرتی پھریں۔‘‘
یہ فرنگی لباس کفار کی مشابہت کے علاوہ عورت کے جسم کو کسی طرح بھی چھپاتا نہیں ہے، بلکہ اس کے فتنہ ہائے جسم کو از حد نمایاں کرتا ہے اور خود عورت اور اسے تاکنے والے کو دھوکے اور فتنے میں ڈالتا ہے۔ ایسا لباس پہننے والی عورت یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی مصداق بنتی ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صنفان من اهل النار من امتى لم ارهما بعد نساء كاسيات عاريات مائلات مميلات على رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها و رجال معهم سياط مثل أذناب البقر يضربون بها الناس
’’میری امت میں سے دو طرح کے لوگ دوزخی ہوں گے، میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے۔ عورتیں ہوں گی (کہنے کو تو) کپڑے پہنے ہوں گی مگر (حقیقت میں) بے لباس اور ننگی ہوں گی، (بے حیائی کی طرف) مائل اور دوسروں کو مائل کرنے والی ہوں گی، ان کے سروں کے جوڑے ایسے ہوں گے کہ بختی اونٹنیوں کے ڈھلکے ہوئے کوہان ہوں، یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی، بلکہ اس کی خوشبو تک نہ پا سکیں گی۔ اور (دوسرا گروہ) مرد ہوں گے، ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دمیں ہوتی ہیں، وہ ان سے لوگوں کو مارتے پھیرتے ہوں گے۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ ان عورتوں کے لباس اس قدر باریک اور مہیں ہوں گے کہ ان کے جسم کی رنگت دکھاتے ہوں گے یا اس قدر تنگ اور چست ہوں گے کہ ان کے جسم کا انگ انگ ظاہر ہوتا ہو گا۔
لباس، بالخصوص عورت کا، ایسا ہونا چاہئے جو اس کے جسم کو پوری طرح چھپا لے۔ کپڑا موٹا (اور کھلا ہونا) چاہئے کہ اس سے جسم کے اعضاء کی جسامت نمایاں نہ ہو۔ مسلمان عورت پابند ہے کہ اپنے آپ کو چھپائے اور پردہ کرے۔ کیونکہ وہ سراسر عورۃ ہے یعنی ستر اور چھپانے کی چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اللہ کے حضور نماز پڑھتے ہوئے بھی اپنا سر ڈھانپنے کا حکم ہے خواہ اپنے گھر ہی اندر ہی کیوں نہ ہو، اور کوئی اجنبی اسے نہ بھی دیکھ رہا ہو:
لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ
’’اللہ تعالیٰ کسی جوان بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا ہے۔‘‘
اس فرمان کا مفہوم اور تقاضا یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو بالخصوص چھپنے کا حکم دیا ہے جو مردوں کو نہیں ہے، اور یہ خالص اللہ کا حق ہے، خواہ اسے کوئی اجنبی نہ بھی دیکھ رہا ہو۔ اور "عورہ" (یعنی چھپانے کی چیز اور شرمگاہ) کا چھپانا اللہ عزوجل کا واجبی حق ہے، خواہ بندہ نماز میں نہ بھی ہو، یا اندھیرے میں ہو، یا اکیلا ہو تب بھی شتر عورہ واجب ہے۔ اس ایسا لباس پہننا واجب ہے جو اسے کما حقہ چھپا دے، جلد کا رنگ اس سے ظاہر نہ ہوتا ہو۔ جناب بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہماری شرمگاہیں، ہم ان میں سے کیا کچھ ظاہر کر سکتے ہیں اور کیا کچھ چھپائیں؟ فرمایا:
احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ
’’یعنی اپنے ستر (اور شرمگاہ) کی حفاظت کر (اور اسے چھپا) سوائے اپنی بیوی یا لونڈی کے۔‘‘
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اگر لوگ اپنے ہی ہوں؟ فرمایا:
فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا
’’جہاں تک ہو سکے، اسے کوئی اور نہ دیکھے۔‘‘
اگر آدمی اکیلا ہو؟ فرمایا:
فالله تعالى أحق أن يستحي منه (سنن ابی داود،کتاب الحمام،باب ماجاءفی التعری،حدیث:4017وسنن الترمذی،کتاب الادب،باب حفظ العورة،حدیث:2769وسنن ابن ماجه،کتاب النکاح،باب التستر عند الجماع،حدیث:1920۔)
’’اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔‘‘
فقہائے اسلام نے صراحت سے لکھا ہے کہ انسان کو باریک لباس جس سے جسم کی رنگت جھلکتی ہو پہننا منع ہے، خواہ شرمگاہ ڈھکی ہوئی ہو۔ اور یہ حکم عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی ہے، خواہ وہ انے گھر کے اندر ہی ہوں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس بارے میں صراحت کی ہے۔
بلکہ ایسا لباس بھی صریحا منع ہے جو جسم کی نرمی اور سختی یا اس کا حجم واضح کرتا ہو۔ امام احمد نے سیدنااسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبطی (مصری) کپڑا عنایت فرمایا، جو مناسب حد تک گاڑھا اور کثیف تھا۔ یہ کپڑا آپ ک دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے ہدیہ کیا تھا۔ میں نے وہ اپنی بیوی کو پہنا دیا۔ بعد میں آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: "کیا بات ہے کہ تو نے وہ قبطی کپڑا پہنا نہیں ہے؟" میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ میں نے اپنی بیوی کو پہنا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
مرها فلتعجل تحتها غلالة فإنى أخاف أن تصف حجم عظامها
’’اسے کہنا کہ اس کے نیچے (بنیان کی طرح کوئی) زیر جامہ بھی استعمال کرے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کی ہڈیوں کا حجم جھلکے گا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:205/5،حدیث:21834۔)
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ عورت کے لیے اپنا کمر بند کس کر باندھنا بھی درست نہیں ہے، جیسے کہ زنار([2]) ہوتی ہے، نماز کے اندر ہو یا اس کے علاوہ، کیونکہ اس سے عورت کی سرین اور دیگر اعضاء بہت نمایاں ہو جاتے ہیں۔
فقہاء یہاں تک لکھتے ہیں کہ عورت کو اٹھتے اٹھتے اپنے کپڑے بھی نہیں سمیٹنے چاہئیں کیوں کہ اس سے اس کے جسم کے انگ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تو یہ لباس (جس کا چلن روز بروز بڑھتا جا رہا ہے) کمر بند باندھنے یا کپڑے سمیٹنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لہذا اس کی منع اور زیادہ تاکیدی ہے۔
(3) ۔۔ یہ لباس جو عورتوں نے اختیار کرنا شروع کر دیے ہیں ان میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ حدیث میں ہے:
لَعَنَ اللهُ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ ،ولَعَنَ اللهُ وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ (صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب المتشبھین بالنساءوالمتشبھات بالرجال،حدیث:5546وسنن ابی داود،کتاب اللباس،باب لباس النساء،حدیث:4097وسنن الترمذی،کتاب الادب،باب المتشبھات بالرجال من النساء،حدیث:2784وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب فی المتخنثین،حدیث:1904۔)
اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:
لَعَنَ اللہ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ
’’اللہ کی لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں اور ایسے مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اپنائیں۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ:319/5،حدیث:26489۔یہ روایت متعدد کتب احادیث میں موجود ہے لیکن'المتخنثین'کالفظ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے دیگر کتب میں'المنخثین'ہے،باقی الفاظ اسی طرح ہیں۔دیکھیے:صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب اخراج المتشبھین بالنساءمن البیوت،حدیث:5547وسنن ابی داود،کتاب الادب،باب الحکم فی المخنثین،حدیث:4930وسنن الترمذی،کتاب الادب،باب المتشبھات بالرجال من النساء،حدیث:2795ومسند احمد بن حنبل:225/1،حدیث:1982۔)
ایک روایت میں ہے:
’’اللہ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو ہیجڑے بنتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اپنائیں۔‘‘
جو عورت مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہے وہ آہستہ آہستہ ان کی عادات بھی اپنانے لگتی ہے، مثلا کھلے عام باہر نکلنا، زینت کا اظہار کرنا، مردوں کی مجلس میں بیٹھنا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کا جسم بھی ظاہر اور نمایاں ہو گا۔ مرد عورتوں پر حاوی ہوتے ہیں۔ تو ان عادات سے وہ ایسے اعمال کی مرتکب ہو گی جو حیا اور نسوانی صفات اور حدود کے بالکل خلاف ہوں گے۔
بالکل اسی طرح جو مرد عورتوں کی مشابہت اور ان کی نقالی کرتے ہیں، وہ ان کی سی عادات بھی اپنانے لگتے ہیں حتی کہ ہیجڑا پن اور تلون مزاجی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ بلکہ بعض تو، العیاذباللہ، اپنے اوپر موقع بھی دینے لگتے ہیں جیسے کہ وہ عورت ہو۔ تو اللہ کی بے شمار رحمتیں اور سلامتی ہو اس ذات پاک پر جس نے اللہ کا دین پہنچایا اور خوب واضح کر کے پہنچایا، اللہ کی امانت کامل طور پر ادا فرما دی اور امت کی خیرخواہی کرنے میں قطعا کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
فرنگیوں کے نقش قدم پر چلنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مردوں عورتوں کی اکثریت بے محابا اکٹھے باہر آتے جاتے ہیں، دفتروں میں اکٹھے کام کرتے ہیں، دکانوں اور بازاروں میں اکٹھے کام کرتے ہیں، عورتیں بلا محرم (اور بلا جھجھک) دوسروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ اور مردوں کا حال یہ ہے کہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار کرتے ہیں، اپنی گفتگو میں عورت پنے کا اظہار کرتے ہیں، ڈاڑھیاں منڈاتے اور لچک لچک کر چلتے ہیں، انگوٹھیاں اور بٹن سونے کے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی گھڑیاں باندھنے میں حرج نہیں سمجھتے جن میں سونا استعمال کیا ہوتا ہے، مرد ہوتے ہوئے عورتوں کی طرح اپنی چادریں اور شلواریں لٹکاتے ہیں۔ اور دوسری طرف عورتوں کا حال یہ ہے کہ ان کا لباس مختصر ہوتے ہوتے گھٹنے یا اس سے اوپر تک آ رہا ہے، جس سے ان کی رانیں بالکل نمایاں (بلکہ عریاں) ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہم ان کی بے حیائی اور اللہ کی حرمتوں کی پامالی پر اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(4) ۔۔ ان کا یہ لباس، بے دین لوگ خواہ اسے کتنا ہی زیب و زینت قرار دیں، اور ان کا یہ خیال باطل ہے محض ہے اور زینت حقیقت میں وہ ہے جس میں پردہ ہو اور عورت اس میں با وقار نظر آئے۔ یقینا لباس اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کا اللہ نے احسان جتلایا ہے۔ فرمایا:
﴿ـٰبَنى ءادَمَ قَد أَنزَلنا عَلَيكُم لِباسًا يُوٰرى سَوءٰتِكُم وَريشًا ... ﴿٢٦﴾... سورةالاعراف
’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور تمہارے لیے زینت ہے۔‘‘
اور یہ کوئی زینت نہیں ہے کہ بندہ بے لباس اور ننگا ہو جائے اور بے دین فرنگیوں کی نقالی کرنے لگے۔ بالفرض اگر اسے زینت سمجھ بھی لیا جائے تو ہر عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جو اس کے جی میں آئے اسے زینت اور سنگار کے نام پر اپنا لے۔ زینت کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو شریعت میں ممنوع بلکہ حرام ہیں اور ان کا مرتکب لعنت کا نشانہ بنتا ہے۔ جیسے کہ "واصلہ" یعنی بال جوڑ کر لمبے کرنے اور کروانے والی جیسے کہ ہمارے ہاں وگیں ہوتی ہیں، "نامصہ اور متنمصہ" یعنی اپنے ابروؤں کو نوچ کر باریک بنانے اور بنوانے والی، "واشرہ اور مستوشرہ" یعنی اپنے دانت باریک کرنے اور کروانے والی، "واشمہ اور مستوشمہ" جسم گودنے اور گدوانے والی، ان سب عورتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ اس معنی کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عبدالله بن مسعود رضى الله عنه لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الواشمات والمستوشمات والمتنصمات والمتفلجات للحسن المغيرات لخلق الله
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ایسے اور ایسے کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: میں کیوں لعنت نہ کروں اس کو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہو، جبکہ وہ کتاب اللہ میں بھی مذکور ہو۔ وہ عورت کہنے لگی میں نے قرآن جو اِن گتوں کے درمیان ہے وہ سب پڑھا ہے، مجھے تو کہیں نہیں ملا جو آپ کہتے ہیں! آپ نے فرمایا: اگر تو نے پڑھا ہوتا تو پا لیتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی:
﴿ وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ... ﴿٧﴾...سورة الحشر
’’جو کچھ تمہیں رسول دے دیں وہ لے لو اور جس سے منع کر دیں اس سے رک جاؤ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب امور سے منع فرمایا ہے۔
(5)۔۔ عورتیں اپنی عقل اور اپنے دین میں کمزور ہیں اور دینی تصورات اور عملی دائرے میں بہت حد تک ضعیف ہیں۔ ان کی فرنگیوں کی تقلید سے معاشرے میں جو شر اور فساد پھیل رہا ہے اس کی انتہا اللہ ہی کے علم میں ہے۔ ملکوں میں جو فساد پھیل رہا ہے وہ سب ان عورتوں کی اطاعت کی وجہ سے ہے۔ صحیحین میں ہے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما تركت بعدى على أمتى فتنة اضر على الرجال من النساء
’’میں نے اپنے بعد اپنی امت میں مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ:46/4،حدیث:17642۔)
اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے:
إن الدنيا حلوة خَضِرة، وإن الله مستخلفكم فيها، فينظر كيف تعملون، فاتقوا الدنيا، واتقوا النساء، فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء
’’یہ دنیا انتہائی شیریں اور سرسبز و شاداب ہے اور اللہ نے تمہیں اس کا جانشین بنایا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ کیسے عمل کرتے ہو۔ سو تم دنیا سے اور عورتوں سے متنبہ رہو، بلاشبہ سب سے پہلا فتنہ جو بنی اسرائیل میں ہوا تھا وہ عورتوں ہی میں تھا۔‘‘(صحیح مسلم،کتاب الذکروالدعاءوالتوبۃوالاستغفار،باب اکثر اھل الجنۃالفقراءواکثراھل النار النساء،حدیث:2742وسنن الترمذی،کتاب الفتن،باب اخبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابہ بما ھوکائن الی یوم القیامۃ،حدیث:2191۔)
اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً
’’وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جو اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کر دے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی کسری وقیصر،حدیث:4163وسنن النسائی،کتاب آداب القضاءۃ،باب النھی عن استعمال النساءفی الحکم،حدیث:5388المستدرک للحاکم:128/3،حدیث:4508۔)
اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ:
هلك الرجال حين أطاعوا النساء
’’جب عورتوں کی اطاعت ہونے لگے تو اس میں مردوں کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘ (اتخاف الخیرۃالمھرۃبزوائدالمسانید العشرۃللبوصیری:26/5ومسند احمد بن حنبل:45/5،حدیث:20473والستدرک للحاکم:323/4،حدیث:7789۔)
اور ایک حدیث میں یوں ہے:
ما رأيت من ناقصات عقل و دين أغلب للب ذى اللب من إحداكن
’’میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر کسی کم عقل اور ناقص دین کو نہیں دیکھا جو کسی اچھے بھلے دانا مرد کی عقل کھو دیتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات،حدیث:79وسنن ابی داود،کتاب السنۃ،باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ،حدیث:4679وسنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب فتنۃ النساء،حدیث:4003"حدیث کے الفاظ'اغلب لذی لب۔۔۔۔۔'اور بخاری میں'اذھب للب الرجل الحازم'ہیں۔دیکھیے:صحیح بخاری،کتاب الحیض،باب ترک الحائض الصوم،حدیث:298۔)
اور اعشیٰ (عبداللہ بن اعور مازنی) نے اپنی ایک ملاقات میں آپ علیہ السلام کو اپنے کچھ اشعار سنائے تو ان میں ایک مصرع یہ تھا:
وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ
’’اور یہ عورتیں جس پر غالب آ جائیں بہت بری ہوتی ہیں۔‘‘ (زھرۃ الامن فی الامثال والحکم:102۔)
اور آپ یہ مصرع بار بار دہرانے لگے:وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ
الغرض ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ مردوں پر واجب ہے کہ اپنی عورتوں کی نگہبانی کا فریضہ سر انجام دیں، اور یہ جو اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں ان کے ہاتھ پکڑیں اور انہیں ان کے کپڑوں کے نت نئے فیشن سے منع کریں، اللہ کی حدود کے معاملے میں ان کے ساتھ مداہنت نہ کریں، اور یہ ذمہ داریاں مردوں پر شرعی لحاظ سے واجب ہیں۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَيها مَلـٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ ﴿٦﴾... سورةالتحريم
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچا لو، جس کا ایندھن لوگ ہوں گے اور پتھر، اور اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تند خو اور سخت ہیں، اللہ جو انہیں حکم دے دے اس کی وہ قطعا نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘
علمائے امت نے صراحت سے لکھا ہے کہ عورت کے ولی امر اور سرپرست پر واجب ہے کہ اسے حرام سے بچائے۔ وہ لباس کا مطالبہ ہو یا کچھ اور۔ اگر وہ باز نہ آئے تو (ولی پر) واجب ہے کہ اسے تادیبی سزا (تعزیر) دے۔ اور حدیث میں ہے کہ:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
’’تم میں سے ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے، اور ہر شخص اپنے زیر تولیت (رعیت) کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الجمعة،باب الجمعۃفی القری والمدن،حدیث:853وصحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبةالجائز،حدیث:1829وسنن الترمذی،کتاب الجھاد،باب الامام،حدیث:1705وسنن ابی داود،کتاب الخراج والفی والامارۃ،باب مایلزم الامام من حق الرعیة،حدیث:2928۔)
الغرض اس معاشرتی فتنے پر بند باندھنا بہت ہی ضروری معاملہ ہے۔ اولا تو حکام پر واجب ہے اور ساتھ ہی ان عورتوں کے والدین اور سرپرستوں پر بھی، اور پھر بذات خود عورت بھی ذمہ دار ہے اپنی بھی اور اپنے گھر کی بہو بیٹیوں کی بھی، اس سے ان امور کی پوچھ گچھ ہو گی۔ اور اہل علم پر لازم ہے کہ ان مسائل سے لوگوں کو آگاہ کریں، انہیں برے انجام سے ڈرائیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو شعبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے وابستہ ہیں، انہیں چاہئے کہ ان امور کی برائی واضح کریں اور ان کے ازالہ میں بھرپور محرم محنت کریں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ ہمیں ان ظاہر و پوشیدہ گمراہ کن فتنوں سے بچائے رکھے، اپنے دین کی نصرت فرمائے اور اس کا کمہ سر بلند ہو اور دین کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرے؟ بلاشبہ وہ بڑا ہی سخی اور مہربان ہے۔
[1] یہ ایک اہم کتاب ہے۔اردو میں اس چند ایک تراجم بازار میں میسر ہیں۔چاہیے کہ صاحب نظر اور داعی حضرات اسے اپنے مطالعہ میں رکھیں۔مثلاً"اسلام اور غیر اسلامی تہذیب"ترجمہ ازمولوی شمس تبریز خان صاحب،رفیق مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،"راہ حق کے تقاضے"مکتبہ السلفیہ لاہور وغیرہ۔
[2] یعنی وہ رسی(یابیلٹ)جو عیسائی،یہودی اور مجوسی اپنی کمر میں باندھتے ہیں۔ہندو اپنے گلے اور بغل کے نیچے پہنتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب