السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ کسی نابینا کے سامنے اپنا چہرہ کھول لے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی مرد نظر سے معذور ہو تو جائز ہے کہ عورت اس کے سامنے اپنا چہرہ کھول لے۔ صحیح مسلم میں سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا، جبکہ انہیں طلاق ہو گئی تھی:
اعتدى عند ابن مكتوم فانه رجل اعمى تضعين ثيابك فلا يراك
’’ابن ام مکتوم کے احاطے میں اپنی عدت کے دن پورے کر لو، بلاشبہ وہ نابینا آدمی ہے، اگر تم کسی وقت اپنا کپڑا اتار بھی لوں گی تو وہ تمہیں دیکھ نہیں سکے گا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب المطلقۃ ثلاثا لا نفقۃ لھا،حدیث:1480وسنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی نفقۃ المبتوتہ،حدیث:2284وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب اذااستشارت المراۃرجلا فیمن یخطیھا،حدیث:3245ومسند احمد بن حنبل:412/6،حدیث:27368) حدیث میں(فلا یراک)کے بجائے(لم یرک)ہے۔
صحیحین میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انما جعل الاستيذان من اجل النظر
’’کسی کے گھر جانے کے لیے اجازت لینا اسی غرض سے ہے کہ نظر نہ پڑے۔‘‘
اور نبہان کی وہ روایت جو وہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ سیدہ ام سلمہ اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنھن آپ کے پاس تھیں، تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ ان سے پردہ کر لو تو انہوں نے کہا: یہ تو نابینا ہے، ہمیں نہیں دیکھ سکتا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افعميا وان انتما، الستما تبصرانه
’’تو کیا تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم اسے نہیں دیکھ رہی ہو؟‘‘ (سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی قولہ تعالی وقل للمومنات یغضضن من ابصارھن،حدیث:4112سنن الترمذی،کتاب الادب،باب احتجاب النساءمن الرجال،حدیث:2778۔)
تو یہ حدیث اپنے شذوذ اور دیگر صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
اصول حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہومگر دیگر زیادہ صحیح احادیث کے خلاف ہو اتو اسے شاذ اور ضعیف قرار دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ چونکہ صحیح حدیث کی شرط یہ ہے کہ وہ شاذ نہ ہو (یعنی دیگر صحیح احادیث کے مقابلہ میں منفرد اور اکیلی نہ ہو)، تو نبہان کی مذکورہ حدیث اگر صحیح بھی سمجھی جائے تو شاذ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک اور علت بھی ہے کہ مذکورہ راوی نبہان کو قابل اعتماد ائمہ جرح و تعدیل نے ثقہ (قابل اعتماد) نہیں سمجھا اور وہ قلیل الروایہ بھی ہے۔ تو اس قسم کی روایت میں اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
اور بعض اہل علم نے اس شدت (حجاب) کو امہات المومنین سے خاص کرنے کی کوشش کی ہے، مگر یہ بات درست نہیں کیونکہ خصوصیت کے لیے کوئی دلیل ہونی چاہئے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب