سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(909) ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم

  • 18516
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1038

سوال

(909) ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس میں علماء کا کچھ اختلاف ہے۔ جمہور اس بات کے قائل ہے کہ اسبال (لٹکانا) وہی حرام ہے جو تکبر کی نیت سے ہو۔ جبکہ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر اسبال (لٹکانا) حرام ہے، خواہ تکبر کی نیت سے ہو یا نہ ہو۔ اور یہ دوسرا قول ہی راجح ہے۔ اور ہماری ترجیح درج ذیل دلائل کے تقابل سے واضح ہو گی۔ جمہور کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔ حافظان امت حضرت ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تکبر سے اپنا کپڑا لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی طرف نظر نہیں فرمائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری چادر کا ایک پلو ڈھیلا ہو جاتا ہے، سوائے اس کے کہ میں اس کا زیادہ ہی اہتمام کروں۔آپ نے فرمایا: ’’تم ان میں سے نہیں ہو جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب فضل الصحابۃ،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت متخذا خلیلا،حدیث:3465۔صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم جرالثوب خیلاء۔۔۔۔۔حدیث:2085۔مسلم کی روایت میں جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے۔سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب ماجاءفی اسبال الازار،حدیث:4085۔سنن الترمذی،کتاب اللباس،باب ماجاءفی جرذیول النساء،حدیث:1731۔)

2۔ صحیحین کے علاوہ مسند احمد میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس بندے کی طرف نظر نہیں کرے گا جو تکبر سے اپنا ازار لٹکاتا ہو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:503/2،حدیث:10548۔) اسی روایت میں جو بخاری میں ہے، یوں ہے کہ ’’ازار کا جو حصۃ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب مااسفل من الکعبین فھو فی النار،حدیث:5450وسنن النسائی،کتاب الزینة،باب ماتحت الکعبین من الازار،حدیث:5331۔)

اور ان کے بلمقابل جو کہتے ہیں کہ اسبال (کپڑا لٹکانا) ہر حال میں حرام ہے، ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’’تین قسم کے آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ بہت ہی گھاٹے اور خسارے میں رہے وہ لوگ! آپ علیہ السلام نے دوسری اور تیسری بار بھی یہی بات دہرائی۔ تو ابوذر رضی اللہ علیہ نے بھی پوچھا: کون ہیں وہ لوگ اے اللہ کے رسول! بہت ہی گھاٹے اور خسارے میں رہے وہ لوگ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی ازا لٹکانے والا، احسان کر کے جتلانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنا مال بیچنے والا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان غلط تحریم اسبال الازار والمن بالعطیۃ،حدیث:106وسنن ابی داود،کتاب اللباس،باب ماجاءفی اسبال الازار،حدیث:4087وسنن الترمذی،کتاب البیوع،باب فیمن حلف علی سلعۃ کاذبۃ،حدیث:1211وسنن النسائی،کتاب الزکاۃ،باب المنان بما اعطی،حدیث:2563۔)

اس حدیث کی شرح میں امام شوکانی رحمہ اللہ سے تسامح ہوا ہے، کہتے ہیں کہ اس حدیث میں مطلق "المسبل" کا ذکر آیا ہے، اور حدیث ابن عمر و ابی ہریرہ میں مقید آیا ہے۔ لہذ مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا۔ مگر بات ایسے نہیں ہے بلکہ " المسبل" عام معرف باللام ہے، جیسے کہ خود شوکانی رحمہ اللہ نے کئی ایک مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اور حدیث ' من جر ثوبه خيلاء او بطرا ' یہ اس عام کے اجزا ہیں، اور یہاں عام کے افراد میں سے ایک کا ذکر کیا گیا ہے، مثلا آپ علیہ السلام دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور کسی بڑی بات پر عذاب نہیں ہو رہا، لیکن ہاں بڑی بھی ہے۔ ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے طہارت نہیں کیا کرتا تھا، اور دوسرا لوگوں میں چغل خوری کرتا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الوضوء،باب ماجاءفی غسل البول،حدیث:215وصحیح مسلم،کتاب الطہارۃ،باب الدلیل علی نجاسۃالبول ووجوب الاسبراءمنہ،حدیث:292وسنن ابی داود،کتاب الطہارۃ،باب الاسیراءمن البول،حدیث:20۔)

ایک اور مثال:۔۔ حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنی شرمگاہ کو چھوا، وہ نماز نہ پڑھے حتی کہ وضو کر لے۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب الطہارۃ،باب الوضوءمن مس الذکر،حدیث:82ومسند احمد بن حنبل:406/6،حدیث:27336۔المستدرک للحاکم:232/1،حدیث:476۔) امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل:406/6،حدیث:27335،ایضا:194/5،حدیث:21735۔)

اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حنابلہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ "جو اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگا بیٹھا ہو وہ وضو کرے۔" اس پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا جیسے کہ منتقی الاخبار کی شرح دلیل الاوصاف میں ہے کہ یہ ارشاد عام ہے کہ "آدمی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے یا کسی دوسرے کی شرمگاہ کو۔" یہ حکم دونوں کو شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں روایتوں کا مخرج ایک ہے، اس لیے دوسری روایت پہلی سے مقید ہونی چاہئے۔

اور ہمارے زیر بحث مسئلہ میں یہ حدیث پہلی سے بالکل مختلف ہے شلاشة لا يكلمهم الله يوم القيامة

2۔ دوسری حدیث جو سنن ابی داود اور نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور سند اس کی صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کی ازاد آدھی پنڈلی تک ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں اگر یہ آدھی پنڈلی سے لے کر ٹخنوں کے درمیان تک رہے۔ اور جو ٹخنوں سے نیچے ہے تو وہ آگ میں ہے۔‘‘(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب ماجاءفی قدر موضع الازار،حدیث:4093وسنن ابن ماجہ،کتاب اللباس،باب موضع الازاراین ھو،حدیث:3573ومسند احمد بن حنبل:5/3،حدیث:11023۔)

3۔ تیسری حدیث طبرانی میں ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عمرو بن زرارہ انصاری رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے ایک چادر باندھی ہوئی تھی اور دوسری اوپر اوڑھی ہوئی تھی، نیچے کی چادر لٹک رہی تھی، تو نبی علیہ السلام اس کے کپڑے کا پلو، تواضع سے، اٹھانے لگے اور کہہ رہے تھے ’’اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے، تیرے بندے کا بیٹا ہے، تیری بندی کا بیٹا ہے۔‘‘ حتی کہ عمرو بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی تو کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میری پنڈلیاں بہت پتلی اور کمزور ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’اے عمرو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہترین پیدا فرمایا ہے، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسبال کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (المعجم الکبیر:232/8،حدیث:7909ومسند الشامیین:227/2،حدیث:1237۔)

اس کے علاوہ وہ حدیث بھی ملا لیجیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اپنی ازار کو آدھی پنڈلی تک رکھو، اگر انکار کرو تو ٹخنوں تک، اور اپنے آپ کو اسبال سے بچاؤ، بےشک اسبال تکبر ہے اور اللہ کو تکبر پسند نہیں ہے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب ماجاءفی اسبال الازار،حدیث:4084۔السنن الکبری للبیھقی:236/10،حدیث:20882المعجم الکبیر للبیھقی:65/7،حدیث:6386۔)

خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ازار لٹکانا تکبر ہے۔‘‘ تو ان احادیث کی روشنی میں میں کہتا ہوں کہ مذکورہ بال اقوال میں سے دوسرا قول ہی صحیح ہے یعنی زار لٹکانا حرام ہے۔ جبکہ جمہور علمائے کرام یہ شرط کرتے ہیں کہ یہ تبھی حرام ہے، جب تکبر سے کرے۔

خیال رہے کہ اسبال (لٹکانا، حد سے زیادہ لمبا کرنا) جس طرح ازر (نیچے کی چادر میں ہوتا ہے، اسی طرح قمیص اور پگڑی میں بھی ہوتا ہے۔ جیسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اسبال ازر، قمیص اور پگڑی میں ہوتا ہے۔ جس نے اپنا کپڑا تکبر سے لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب ماجاءفی قدر موضع الازار،حدیث:4094وسنن النسائی،کتاب الزینة،باب اسبال الازار،حدیث:5334وسنن ابن ماجہ،کتاب اللباس،باب طول القمیص کم ھو،حدیث:3576۔)

اور عورتوں کے لیے، بعض کے بقول، علماء کا اجماع ہے کہ عورت کو اپنی ازار لٹکانی چاہئے۔ شاید اس اجماع کی دلیل سنن نسائی اور ترمذی کی وہ حدیث ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ: ’’اے اللہ کے رسول! عورتیں اپنی چادروں کے پلوؤں کا کیا کریں؟‘‘ فرمایا؛ ’’ایک بالشت بھر لٹکا لیا کریں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’تب تو ان کے پاؤں نمایاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک ہاتھ لٹکایا کریں، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب اللباس،باب ماجاءفی جر ذیول النساء،حدیث:1731وسنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب ذیول النساء،حدیث:5337،5338۔)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 639

محدث فتویٰ

تبصرے