سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(846) خاوند كے برے سلوک کی وجہ سے بیوی کا تنگ آنا

  • 18453
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 940

سوال

(846) خاوند كے برے سلوک کی وجہ سے بیوی کا تنگ آنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی کو تیرہ سال ہو رہے ہیں اور میری تین بیٹیاں ہیں، میرے شوہر کا معاملہ میرے ساتھ بہت برا ہے، معمولی معمولی وجہ سے بری بری گالیاں دینے لگتا ہے۔ اگرچہ اس نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، دیندار بھی ہے لیکن انتہائی جذباتی ہے۔ اس کے برے سلوک کی وجہ سے اس کے متعلق میرے دل میں کراہت بیٹھ گئی ہے، اور میں ان عادات کی وجہ سے اس کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتی ہوں۔ تو میں کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت نے ایسے حالات میں بصورت خلع حل پیش کیا ہے، بشرطیکہ ان اسباب کے تحت عورت اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور وہ حق پر ہو۔ مرد کے لیے قطعا مناسب نہیں ہے کہ معمولی معمولی وجہ سے بیوی کو مارنے لگے۔ اگر وہ کسی سبب سے مارے بھی تو چاہئے کہ پہلے نصیحت کر چکا ہو اور بستر سے علیحدہ کیا ہو یا اسی انداز کے دوسرے اسالیب سے اسے سمجھا چکا ہو۔

صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وان الرفق ما كان الرفق في شيء إلا زانه وما نزع من شيء إلا شانه

"نرم خوئی جس چیز میں بھی آئے اسے خوبصورت اور مزین بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی اسے نکال لیا جائے اسے بدصورت بنا دیتی ے۔" (صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃوالاداب،باب فصل الرفق،حدیث:2594ومسند احمد بن حنبل:6/171،حدیث:25425(نزع کی بجائے ینزع ہے۔عاصم))

ایک اور حدیث میں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إن الله رفيق يحب الرفق ، و يعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف

’’اللہ تعالیٰ رفیق (نرم خو) ہے نرم خوئی کو پسند کرتا ہے، اور نرم خوئی پر وہ کچھ عنایت فرماتا ہے جو بدخوئی پر نہیں دیتا۔‘‘(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃوالاداب،باب فصل الرفق،حدیث:2593السنن الکبری للبیھقی:193/10،حدیث:20586۔)

یہ آدمی (جس کا سوال میں ذکر ہوا ہے) احمق اور حدود شریعت سے خارج ہے اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت آتا ہے:

ان شر الرعاة الحطمة

’’برا چرواہا  وہ ہے جو اونٹوں پر ظلم کرے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب التفسیر،فی قولہ ھذان خصمان اختصموافی رجھم،حدیث:3033،صحیح ابن حبان:368/10،حدیث:4511۔)

(یعنی جو کمزور پر ظلم کرے وہ کسی طرح پسندیدہ نہیں ہو سکتا) اسے اس کی زوجہ ناپسند کرتی ہے۔ اگر شوہر اسے طلاق دے دے تو بہتر ورنہ یہ اس سے خلع لے لے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیٹیاں بدحال ہو جائیں گی حالانکہ وہ اس بات کی انتہائی محتاج اور ضرورت مند ہیں کہ ماں اور باپ (دونوں) ان کی تربیت کریں۔ شوہر کو اجازت نہیں کہ بیوی کو مارے، سوائے اس کے کہ وہ کسی فحش کی مرتکب ہو۔ اگرچہ بقول امام احمد رحمہ اللہ عورت کا "بشوز" اور "نافرمانی" بھی "فاحشہ" میں شامل ہے۔

سنن ابی داود اور ترمذی وغیرہ میں حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث آئی ہے کہ پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول! بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ فرمایا:

تطعمها اذا طعمت وان تكسوها إذا اكتسبت، ولا تضرب الوجه ولا تقبح، ولا تهجر إلا في البيت

’’اسے کھلا جب تو کھائے،  اسے پہنا جب تو پہنے، چہرے پر مت مار، برا مت بول، اور اس سے مقاطعہ نہ کر سوائے گھر کے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی حق المراۃعلی زوجھا،حدیث:2142سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حق المراۃعلی الزوج،حدیث:1850۔)

اور جمہور آخری بات میں اس بات کے قائل ہیں کہ یہ "نہی تنبیہ" ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المومنین سے گھر سے باہر علیحدگی اختیار کی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿الرِّجالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم فَالصّـٰلِحـٰتُ قـٰنِتـٰتٌ حـٰفِظـٰتٌ لِلغَيبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُروهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِبوهُنَّ... ﴿٣٤﴾... سورة النساء

’’اور جن عورتوں کے متعلق تمہیں ان کی نافرمانی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور بستروں سے علیحدہ کر دو اور سزا دو۔‘‘

مگر شوہر پر معمولی معمولی بات پر مارنے لگے تو یہ انتہائی بد اخلاقی ہے اور بڑے افسوس کی بات ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 594

محدث فتویٰ

تبصرے