سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(389) یوم عرفہ اور رؤیت ہلال

  • 1845
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1300

سوال

(389) یوم عرفہ اور رؤیت ہلال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مَاذَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ رُؤْيَةِ الْهِلالِ ، هَلْ يَکْفِیْ رُؤْيَةُ الْمَمْلَکَةِ الْعَرَبِيَّةِ السَّعُوْدِيَّةِ لَنَا أَمْ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَةٌ ؟ مَاذَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ هَلْ يَلْزَمُ صَوْمُهَا مَعَ اَهْلِ الْعَرَبِ أَیْ الْحُجَّاجِ الَّذِيْنَ هُمْ فِی الْحَرَمِ أَوْ تُصَامُ عَلٰی وَفْقِ رُؤْيَةِ أَهْلِ بَاکِسْتَانَ وَنَهْجِ أَهْلِ بَاکِسْتَانَ؟

’’چاند دیکھنے کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں کیا سعودی عرب میں چاند دیکھنا کافی ہے ہمارے لیے بھی یا ہر ملک کے علیحدہ رؤیت ہے آپ یوم عرفہ کے روزے کے متعلق کیا فرماتے ہیں کیا وہ عرب والے حاجیوں کے ساتھ رکھا جائے گا جو حرم میں ہیں یا اہل پاکستان کی رؤیت اور ان کے طریقہ کے موافق رکھا جائے گا‘‘؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اَلْبِلاَدُ الَّتِیْ مَطْلَعُهَا وَاحِدٌ رُؤْيَتُهَا وَاحِدَةٌ ، وَالَّتِیْ مَطْلَعُهَا لَيْسَ بِوَاحِدٍ رُؤْيَتُهَا لَيْسَتْ بِوَاحِدَةٍ، بَلْ رُؤْيَةُ کُلٍّ مِنْهَا عَلٰی حِدَةٍ وَتَارِيْخُ کُلٍّ مِنْهَا غَيْرُ تَارِيْخِ الْآخَرِ ، وَيَتَنَاوَلُ هٰذَا الْأَصْلُ رَمَضَانَ وَسَائِرَ شُهُوْرِ السَّنَةِ ، وَالْأَعْيَادَ ، وَصِيَامَ عَاشُوْرَاءَ ، وَصِيَامَ عَرَفَةَ ، وَالدَّلِيْلُ عَلٰی هٰذَا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِﷺ کَانَ يَصُوْمُ الْيَوْمَ الْعَاشِرَ مِنَ الْمُحَرَّمِ بِحِسَابِ أَهْلِ الْحِجَازِ ، وَقَالَ : لَإِن بَقِيْتُ إِلٰی قَابِلٍ لَأَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ ۔ وَلاَ يَکُوْنُ ذٰلِکَ الْيَوْمُ عَاشِرَ الْمُحَرَّمِ بِحِسَابِ الْبَلَدِ الَّذِیْ کَان يَقْطُنُ بِهِ اِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَلاَ بِحِسَابِ الْبَلَدِ الَّذِیْ کَانَ يُقِيْمُ بِهِ مُوْسٰی عَلَيْهِ السَّلاَمُ ۔ واﷲ اعلم

’’وہ ملک جن کا مطلع ایک ہے ان کی رؤیت بھی ایک ہے اور جن کا مطلع ایک نہیں رؤیت بھی ایک نہیں ہے بلکہ ہر ایک کی رؤیت  علیحدہ ہے اور ہر ایک کی تاریخ دوسرے کی تاریخ سے مختلف ہے یہ قانون رمضان سال کے تمام مہینے اور عیدین اور عاشوراء کے روزے اور عرفہ کے روزے کو شامل ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ دس (۱۰) محرم کا روزہ اہل حجاز کے حساب سے رکھتے تھے اور فرمایا اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو ۹ محرم کا روزہ رکھوں گا۔(مسلم۔کتاب الصیام۔باب صوم یوم عاشوراء)اور وہ دن حضرت ابراہیم عليه السلام کے وطن اور حضرت موسیٰ عليه السلام کی اقامت گاہ کے حساب سے دس (۱۰) محرم نہیں بنتا‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

روزوں کے مسائل ج1ص 279

محدث فتویٰ

تبصرے