السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جناب کو معلوم ہو گا کہ حضرت حافظ صاحب گوندلوی مرحوم درہم میں صاع کا وزن بیان کرتے وقت ایک درہم کا وزن تین ماشے ایک رتی اور خمس رتی بیان کیا کرتے تھے۔ تین ماشے 1/1/5 درہم کا یہ وزن حضرت حافظ صاحب مرحوم کس حوالہ سے بیان کیا کرتے تھے ؟
ہمارے وقت میں حضرت حافظ صاحب نے ’’باب الغسل بالصاع ونحوہ ‘‘ میں ’’صاع‘‘ کے وزن پر بحث کرتے ہوئے درہم کا مذکورہ وزن غالباً بیان کیا تھا۔
آپ کو معلوم ہو یا کسی صاحب کو تو لکھیں ؟ اگر حوالہ آپ کے ذہن میں نہ ہو تو پھر اپنی معلومات کی بنیاد پر درہم ودینار کا وزن تحریرکریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ درہم کا وزن تین ماشہ 1/1/5 رتی ہونے کے سلسلہ میں جو حوالہ دیا کرتے تھے وہ مجھے معلوم نہیں ویسے آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ تمام اہل علم متفق ہیں کہ نصاب فضہ ۲۰۰ درہم ہے جس کا وزن52/1/2 تولہ سے اور نصاب ذہب ۲۰ دینار ہے جس کا وزن7/1/2 تولہ ہے تو اگر ساڑھے باون تولہ کو ۲۰۰ پر تقسیم کیا جائے تو ایک درہم کا وزن 21/80 تولہ آئے گا جو تین ماشہ1/1/5 رتی ہی ہے اسی طرح 7/1/2 تولہ کو ۲۰ پر تقسیم کیا جائے تو ایک دینار کا وزن3/8 تولہ بنتا ہے جو4/1/2 ماشہ ہے تو اس اتفاقی نصاب زکوٰۃ کے بعد متذکرہ بالا تقسیم سے ایک دینار کا وزن 4/1/2 ماشہ اور ایک درہم کا وزن تین ماشہ1/1/5 رتی ہے معلوم کرنا آسان ہے ۔
صاحب قاموس لکھتے ہیں:
«وَالرِّطْلُ اِثْنَتَا عَشَرَةَ أُوْقِيَةً وَالْأُوْقِيَةُ إِسْتَارٌ وَثُلُثَا إِسْتَارٍ وَالْإِسْتَارُ أَرْبَعَةُ مَثَاقِيْلَ وَنِصْفٌ وَالْمِثْقَالُ دِرْهَمٌ وَثَلاَثَةُ أَسْبَاعِ دِرْهَمٍ ، وَالدِّرْهَمُ سِتَّةُ دَوَانِقَ وَالدَّانِقُ قِيْرَاطَانِ وَالْقِيْرَاطُ طُسُوْجَانِ وَالطُّسُوْجُ حَبَّتَانِ‘‘ (1)
’’اور رطل بارہ اوقیہ کا ہوتا ہے اور اوقیہ 1/2/3 استار کا ہے اور استار4/1/2 مثقال کا ہے اور مثقال 1/3/7 درہم کا ہے اور درہم ۶ دانق کا ہے اور دانق ۲ قیراط ہے اور قیراط ۲ طسوج ہے اور طسوج ۲ دانہ کا ہے‘‘
اس طرح درہم کا وزن ۴۸ دانے بنتا ہے جن کا وزن پاک وہند کے علماء نے ۳ ماشہ 1/1/5 رتی بیان کیا ہے چنانچہ ایک بزرگ لکھتے ہیں ؎
درہم شرعی ازیں مسکین شنو
کآں سہ ماشہ ہست یک سرخح دو جو
’’شرعی درہم اس مسکین سے سنو کہ وہ تین ماشہ ایک سرخہ دو جو ہے‘‘
ایک دوسرے بزرگ فرماتے ہیں ؎
باز دینارے کہ دارد اعتبار
وزنآں از ماشہ دان نیم وچہار
’’پھر وہ دینار جو قابل اعتبار ہے اس کا وزن ماشہ سے چار اور آدھا ہے‘‘
شاید حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ سے مولانا محمد علی صاحب جانباز شیخ الحدیث جامعہ ابراہیمیہ ناصر روڈ سیالکوٹ حافظ صاحب رحمہ اللہ کا بیان کردہ حوالہ بتا سکیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(1) فتح الباری،مسلم کی شرح نووی اور دیگر کتب سے پتہ چلتا ہے کہ صاحب قاموس کے بیان میں’’ثلاثة اسباع درہم‘‘ کی جگہ’’اربعہ اسباع درہم‘‘ درست ہے۔