السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک نوجوان عورت، ایک شخص سے اس کی شادی ہوئی ہے، اس مرد کو ایک ایسی بیماری لاحق ہو گئی ہے کہ وہ ہر اس شخص سے جو اس کے قریب ہے اس پر شک کرنے لگا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو بھی زنا کا الزام لگایا ہے، جبکہ بیوی شوہر کے اقارب اور بستی والوں سب کے نزدیک اس الزام سے بالاتر ہے۔ پھر معاملہ اس سے بھی بڑھ گیا کہ وہ اسے قتل کی دھمکیاں دینے لگا اور موقع بموقع مارنے بھی لگا۔ عورت نے اپنے بچوں کی وجہ سے صبر سے کام لیا، لیکن بالآخر اسے گھر سے نکال دیا اور اس کے خاندان میں چھوڑ دیا۔ وہ تقریبا دو سال وہاں رہی اور جہاں تک ہو سکا صبر سے کام لیا۔ شوہر نے اسے کسی قسم کا کوئی خرچ وغیرہ نہیں دیا۔ تنگ آ کر عورت نے مقدمہ کر دیا، اور اس کی گود میں دودھ پیتا بچہ بھی ہے۔ شوہر نے اس کے خلاف گھر سے غائب رہنے کی وجہ سے طلاق کا نوٹش بھیج دیا، جو بذریعہ رجسٹرار نکاح بھیجا گیا۔ پھر عدالت نے سماعت کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ شوہر عورت کو پانچ ہزار جنیہ ادا کرے، تو اس نے کہا کہ میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں، مگر شرط یہ ہے کہ فلاں شیخ (پیر) دجال کے پاس جائے۔ وہ آگ جلاتا ہے اور پھر اس پر کچھ منتر پڑھتا ہے۔ وہ اس عورت کو آگ کے سامنے کرے گا تاکہ اس کی براءت یا عدم براءت ظاہر ہو۔ اور اس عورت نے اپنے بری ہونے کے یقین کے باوجود، جہالت سے کہا کہ کوئی حرج نہیں، میں اس کے کہنے پر یہ بھی کر لیتی ہوں۔ اس میں شرعی حکم کیا ہے کہ کیا یہ عورت اس نوٹس کیوجہ سے جو شوہر نے گھر سے غائب رہنے کی بنیاد پر طلاق دی ہے، بائنہ ہو گئی ہے یا نہیں؟ کیا اسے واپس بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شوہر نے جو طلاق دی ہے، بسبب ضرر نقصان اسے رجوع کا حق نہیں ہے، خواہ طلاق رجعی ہی ہو۔ تاہم یہ بینونہ صغریٰ ہی ہو گی (یعنی یہ وہ علیحدگی ہے جس میں شرعا رجوع ہو سکتا ہے)۔ یہ سوال کے پہلے حصے کا جواب ہے۔ اور دوسرا حصہ کہ وہ شیخ کوئی منتر پڑھتا ہے، اور یہ عورت اس کے پاس جائے یا نہیں؟ تو جب شوہر نے یہ مشہور کر دیا ہے کہ اس نے بیوی کو اس وجہ سے اپنے سے دور کیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تہمت لگا رہا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے لعان کے لیے طلب کیا جائے۔ اگر وہ قبول کر تا ہے تو عورت از خود اس سے علیحدہ ہو جائے گی، اور ہمیشہ کے لیے ان میں فرقت ہو جائے گی۔ لعان کرنے والوں کا حکم یہی ہے، ورنہ اس آدمی کو اسی درے لگائے جائیں۔ اور عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے کہنے پر اس شیخ یا پیر کے پاس جائے، کیونکہ یہ بات اسے شرک میں مبتلا کر سکتی ہے۔ یہ منتر عام طور پر شرکیہ ہوتے ہیں، جن کے ذریعے سے کسی جن وغیرہ کو راضی کیا جاتا ہے۔ اور عورت کو یقین رکھنا چاہئے کہ عین ممکن ہے کہ اس سے اس کی مراد حاصل نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک جن کے بارے میں فرمایا تھا ’’یہ بات اس نے تجھے سچ کہہ دی ہے، حالانکہ ہے وہ بہت جھوٹا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الوکالۃ،باب اذاوکل رجل فترک الوکیل شیئا،حدیث:2187۔سنن النسائی الکبریٰ:238/6،حدیث:10795۔) اور شیخ دجال ممکن ہے لوگ اس کے باطن سے بھی آگاہ ہوں، اور ممکن ہے کہ جب اس شیطان کو بلایا جائے تو وہ کہہ دے کہ اس نے بدکاری کی ہے۔ تو آپ کو قطعا اس راہ پر نہین جانا چاہئے، عین ممکن ہے اس میں آپ کے لیے نقصانات بہت زیادہ ہوں۔ آپ کو چاہئے کہ عدالت نے جو فیصلہ کر دیا ہے اسی پر قناعت کریں، اور اس آدمی کو آپ کی طرف سے رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب