السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر باپ اپنے بیٹے کو حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟ ذرا تفصیل سے واضح فرمایا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر باپ اپنے بیٹے سے مطالبہ کرے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، تو یہ بات دو حالتوں سے خالی نہیں:
پہلی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ باپ کو چاہئے کہ وہ شرعی سبب بیان کرے جو اسے طلاق دینے اور اپنے سے جدا کر دینے کا تقاضا کرتا ہو۔ مثلا واضح کرے کہ یہ اپنے اخلاق و عادات میں مشکوک ہے، مثلا اجنبیوں سے کھلم کھلا باتیں کرتی ہے یا ایسی مجلسوں میں شریک ہوتی ہے جو ناپسندیدہ ہوتی ہیں، وغیرہ۔ اس صورت میں بیٹے کو چاہئے کہ اپنے باپ کا حکم مان لے اور اسے طلاق دے دے۔ کیونکہ ماں باپ نے اپنی کسی خواہش نفس کے تحت اسے یہ حکم نہیں دیا ہے، بلکہ اس نے اپنے بیٹے کے بستر کی حفاظت میں کہ وہ پاک صاف رہے اور میلا نہ ہو، ایسا کیا ہے، لہذا وہ طلاق دے دے۔
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ باپ دیکھے کہ بیٹا اپنی بیوی کی محبت میں از حد مبتلا ہو گیا ہے، اور باپ کو غیرت آئے۔ بلکہ ماں میں یہ مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بہت سی مائیں جب دیکھتی ہیں کہ ان کے بیٹے اپنی بیویوں سے بہت زیادہ محبت کرنے لگے ہیں تو انہیں بہت زیادہ غیرت آتی ہے، حتیٰ کہ اپنی بہو کو اپنی سوتن سمجھنے لگتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی کیفیت سے محفوظ رکھے۔ اس صورت میں بیٹے کو ضروری نہیں ہے کہ اپنے باپ یا ماں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے۔ بلکہ اسے چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ مدارات اور مروت سے کام لے، نرم زبان سے ان کے ساتھ اپنی الفت کا اظہار کرے اور راضی رکھنے کی کوشش کرے اور انہیں سمجھائے، حتیٰ کہ وہ راضی ہو جائیں، بالخصوص جب بیوی اپنے دین اور اخلاق میں عمدہ ہو۔
امام احمد رحمہ اللہ سے اسی قسم کا ایک سوال کیا گیا تھا۔ ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کہ میرا والد مجھے کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ طلاق نہ دو۔ اس نے کہا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا تھا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، جبکہ ان کے باپ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق کا کہا تھا؟ تو امام صاحب نے فرمایا: "تو کیا تیرا باپ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح کا ہے۔"
سو اگر باپ اپنے بیٹے کے سامنے مندرجہ بالا انداز میں دلیل لائے تو بیٹے کو بھی امام احمد رحمہ اللہ کا سا جواب دینا چاہئے کہ "کیا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ہیں؟" تاہم بیٹے کو چاہئے کہ لطف و ملائمت سے بات کرے اور بتائے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے یقینا کوئی ایسی بات دیکھی تھی جو طلاق ہی کا تقاضا کرتی تھی۔
خلاصۃ القول، اس طرح کے بہت سے سوال آتے ہیں تو ان کا جواب یہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب