سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(753) ’’میرے ذمے طلاق ہے، وہ اب دوبارہ اس گھر میں نہیں آئے گی‘‘ کہنے سے طلاق

  • 18360
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 741

سوال

(753) ’’میرے ذمے طلاق ہے، وہ اب دوبارہ اس گھر میں نہیں آئے گی‘‘ کہنے سے طلاق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے اور میری بیوی کے درمیان کچھ اختلاف ہو گیا۔ میں جب صبح کو جاگا تو میں نے اسے گھر میں نہیں پایا۔ میں نے اپنی والدہ سے بات کی تو اس نے مجھے ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی۔ مگر میں نے بیوی کے متعلق کہا؛ میرے ذمے طلاق ہے، وہ اب دوبارہ اس گھر میں نہیں آئے گی۔ میں نے یہ بات دوبارہ اور سہہ بارہ کہی۔ پھر میں نے اس صورت حال کے متعلق علماء سے دریافت کیا تو جوابات مختلف ملے۔ کچھ نے کہا کہ قسم لازم ہے اور وہ واقع ہو گی، اور کچھ نے کہا کہ میں دس مسکینوں کو کھانا کھلا دوں۔ چنانچہ میں نے دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیا۔ پھر دس دنوں کے بعد میں اپنی بیوی کو واپس لے آیا اور اس سے کہا کہ اگر بالفرض میں نے طلاق دی بھی تھی تو اب رجوع کر لیا ہے؟ کیا اس صورت میں مجھ پر گناہ ہے۔ اور مجھے کیا کرنا چاہئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آپ نے اس بات سے طلاق کی نیت کی تھی تو طلاق ہو گی اور اگر آپ نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی بلکہ یہ ارادہ تھا کہ اسے دوبارہ گھر نہیں آنے دو گے، تو آپ کے ذمے قسم کا کفارہ ہے، یعنی دس مسکینوں کا کھانا۔ اور اگر آپ کو اپنی نیت یاد نہیں ہے تب بھی دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیں۔ کیونکہ طلاق محض احتمال اور شک و شبہ سے نہیں بلکہ یقین سے واقع ہوتی ہے۔ سو اگر نیت یاد نہ ہو تو کم تر احتمال کا حکم ہو گا یعنی ارادہ قسم مراد ہو گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ طلاق کا ارادہ نہیں تھا۔ لہذا دس مسکینوں کو کھانا کھلا دو، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 540

محدث فتویٰ

تبصرے